سعودی عرب میں ممنکہ حملوں کا خطرہ
20 اپریل 2015سعودی عرب کی وزارت داخلہ کے ترجمان منصور ترکی نے بتایا ’’ہمیں ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ شدت پسند ریاض کے ایک شاپنگ مال یا ارامکو تنصیابات کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ تمام معلومات ہم نے سلامتی کے اداروں کو دے دی ہیں تاکہ وہ چوکنا رہ سکیں‘‘۔ ترجمان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو مزید بتایا کہ اس خطرے کے حوالے سے ان کے پاس بہت زیادہ اطلاعات نہیں ہیں۔
اس ماہ سعودی پولیس نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے دو پولیس اہلکاروں کو قتل کرنے کے واقعے میں ملوث ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔ ریاض میں پیش آنے والے اس واقعے میں مزید دو پولیس اہلکار زخمی بھی ہو گئے تھے۔ منصور ترکی کے بقول ’’سعودی عرب دہشت گردوں کا نشانہ بنا چکا ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں خاص طور پر افراتفری کی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی کارروائیاں کرنی کی کوشش کرتی ہیں۔‘‘
روئٹرز کے ایک نامہ نگار کے مطابق ہفتے کے روز سے ریاض کے مرکزی شاپنگ مال میں تنہا مردوں کے داخلے پر پابندی عائد کی دی ہے جبکہ محافظوں کی جانب سے خواتین کے دستی سامان کی بھی تلاشی لی جا رہی ہے۔
ریاض حکومت یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ سرحد پار ہونے والی ان جھڑپوں میں اب تک سعودی فوج کے نو اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
2006ء میں القاعدہ کے چار دہشت گرد ’ارامکو بقیق‘ کے مرکز میں داخل ہونے میں کامیاب تو ہو گئے تھے لیکن ان کے اس حملے میں کوئی خاص نقصان نہیں ہوا تھا۔ تاہم سعودی حکام نے دعوی کیا تھا کہ جوابی کارروائی میں ان چاروں حملہ آوروں کو مار دیا گیا تھا۔
آج کل ستر فیصد سعودی خام تیل کو بقیق کے مرکز میں صاف کیا جاتا ہے۔ بقیق مشرقی سعودی عرب میں واقع قدرے ایک چھوٹا سا شہر ہے اور یہ خلیج فارس میں تیل صاف کرنے کی سب سے بڑی ریفائری بھی ہے۔