1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا سے ’پاکستانیوں کی ملک بدری‘، عدالتی منظوری

ندیم گِل2 ستمبر 2014

سری لنکا کی ایک عدالت نے سیاسی پناہ کے خواہاں پاکستانیوں کو ملک بدر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ کولمبو حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ ملک کی سلامتی اور صحت عامہ کے لیے خطرہ ہیں۔

https://p.dw.com/p/1D55e
تصویر: AP

سری لنکا کے ڈپٹی سالیسٹر جنرل جنک دی سلوا نے اپیل کورٹ سے ملک بدر کیے جانے پر قبل ازیں عائد کی گئی پابندی اٹھانے کی استدعا کی تھی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انہوں نے مؤقف اخیتار کیا تھا کہ پاکستانی جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں اور سری لنکا میں ملیریا پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں جبکہ ان کا ملک پہلے اس بیماری سے بالکل پاک تھا۔ دی سلوا کا کہنا تھا کہ ان باتوں کے ثبوت موجود ہیں۔

ایک اڑتیس سالہ پاکستانی خاتون نے قانونی درخواست دائر کی تھی۔ اس کے بھائی، والد کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور انہیں ملک بدر کیا جا سکتا تھا۔

اس خاتون نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اس کے خاندان کو ان کے دعووں کا مناسب طور پر جائزہ لیے بغیر سری لنکا سے نکالا جا رہا ہے۔ اس پر پندرہ اگست کو عدالت نے حکام سے کہا تھا کہ وہ پاکستانیوں کو واپس بھیجنے کا عمل عارضی طور پر روک دیں۔

Bomben auf Militärflughafen in Sri Lanka
سری لنکا پاکستانیوں کے لیے ویزا شرائط بھی سخت بنا چکا ہےتصویر: AP

اس خاتون کے وکیل لکشن دیاس کا کہنا ہے: ’’عبوری ریلیف ختم ہو گیا ہے اور عدالت نے درخواست ردّ کر دی ہے۔ اب حکومت چاہے تو سیاسی پناہ کے خواہاں تمام افراد کو ملک سے نکالا جا سکتا ہے۔‘‘

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ یکم اگست سے اٹھاسی پاکستانیوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔ اس ادارے نے سری لنکا کے اس اقدام کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

اس ادارے نے کولمبو حکومت پر زور دیا کہ وہ پاکستانیوں کو واپس بھیجنا بند کر دے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ملک بدری کے منتطر زیر حراست دیگر 75 افراد تک رسائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

سری لنکا کی حکومت کا کہنا ہے کہ اقتصادی فوائد حاصل کرنے والے تارکینِ وطن کی ایک بڑی تعداد ان کے ہاں پہنچی ہے جس میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ لوگ ملک کے وسائل پر بوجھ بن گئے ہیں اور ملک اور خطے کی سلامتی کے لیے بھی ممکنہ خطرہ ہیں۔

سری لنکا میں پناہ کے لیے پہنچنے والے بیشتر پاکستانیوں کا تعلق احمدی کمیونٹی سے ہے۔ وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں تاہم 1984ء کے ایک قانون کے تحت انہیں غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے۔ بیشتر پاکستانی انہیں کافر قرار دیتے ہیں۔

رواں برس جولائی میں پاکستان میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر توہین مذہب پر مبنی مواد پوسٹ کرنے کے الزام پر کیے گئے ایک حملے میں ایک احمدی خاتون اور اس کی دو کم سِن پوتیاں ہلاک ہو گئی تھیں۔

یو این ایچ سی آر کے رہنما اصولوں کے مطابق مذہبی اقلیتوں کو تحفظ کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور سیاسی پناہ کے لیے ان کے دعووں کو بالخصوص احتیاط سے پرکھے جانا چاہیے۔

سری لنکا کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی طرح بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے ملک نے اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق 1951ء کے کنونشن پر دستخط نہیں کیے۔