1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرحد پار دہشتگردی ، پاکستان کا افغانستان سے احتجاج

شکور رحیم ، اسلام آباد30 جولائی 2014

پاکستان نے دیر کے علاقے میں اپنی فوجی چوکی پر سرحد پار سے دہشتگردانہ حملے پر افغانستان کے ساتھ شدید احتجاج کیا ہے۔ اس ضمن میں اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے ناظم الامور کو بدھ کے روز دفتر خارجہ طلب کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1CmO6
تصویر: CC-BY-Benpaarmann

پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق گزشتہ شب اپر دیر کے علاقےتریپان اور انکال سر کے درمیانی علاقے میں افغانستان سےسرحد پار کر کہ داخل ہونے والے ستر سے اسی دہشتگردوں نے پاکستانی فوج کی چوکی کو نشانہ بنایا۔ بیان کے مطابق پاکستانی فوج کی کامیاب جوابی کارروائی میں سات دہشتگرد ہلاک جب کہ نو زخمی ہو گئے۔

دفترخارجہ کے بیان میں مزید بتایا گیا کہ افغان سفارت خانے کے ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کہ زور دیا گیا کہ سرحد پار سے دہشتگردوں کی فائرنگ اور حملے روکنے کے لیےمؤثر اقدامات اٹھائے جائیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان اس معاملے کو افغان حکومت کے ساتھ اعلی سطح پر بھی اٹھائے گا تاکہ پاک افغان سرحد پر حفاظتی انتظامات کو بہتر کیا جاسکے۔

خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان نے سرحد پار حملے پر افغان حکام سے احتجاج کیا ہے بلکہ اس سے قبل بھی متعدد بار اسلام آباد میں افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کہ احتجاج کیا جا چکا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے حکام دونوں ہی ایک دوسرے پر سرحدی خلاف ورزیوں کا الزمات لگاتے ہیں۔

Pakistan Sicherheit Checkpoint in Bannu
تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images

پاکستانی حکام کے مطابق 2009 میں سوات میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں متعدد شدت پسند طالبان افغانستان فرار ہو گئے تھے۔ بعد میں یہ شدت پسند مختلف مواقعوں پر پاکستانی فوجی چوکیوں پر حملے کرتے رہے ہیں۔ ان حملوں میں اب تک درجنوں پاکستانی فوجی اور شدت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔

دفاعی امور کے تجزیہ کار جنرل(ر) امجد شعیب کا کہنا ہے کہ بارہا احتجاج کے باوجود افغان حکام دہشتگردانہ حملوں کو روکنے میں لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

افغان حکام نے بھی اس ماہ کے آغاز پر پاکستانی فوج پر افغانستان کے صوبوں ورستان اور کنڑ میں حملے کرنے کا الزام عا ئد کیا تھا ۔پاکستانی فوج اور دفتر خارجہ دونوں ہی اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔

افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی پاکستان اور افغانستان کے درمیاں موجودہ صورتحال کو باہمی اعتماد کی کمی کا نتیجہ سمھجتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت ہوتی ہے۔ اچھے اعلانات ہوتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ لگتا نہیں کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو گا۔ 2014 کے بعد اس میں اضافہ ہوگا جب افغان طالبان بڑھ چڑھ کر حملے کریں گے اور افغان حکومت اس کا الزام پاکستان پر لگائے گی‘‘۔

رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق امریکا اور مغربی ممالک میں بھی پاک افغان تعلقات میں تناؤ پر سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ اسی سبب امریکا نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے اپنی شمولیت کے ساتھ ایک سہہ فریقی کمیشن بھی تشکیل دے رکھا ہے۔تاہم رحیم اللہ کے بقول ابھی سہ فریقی کمیشن یا دیگر کوششیں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی دیر پا بہتری میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔