1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ساحر لدھیانوی کی 24 ویں برسی

امجد علی25 اکتوبر 2014

اردو زبان کے مشہور شاعر ساحر لدھیانوی آٹھ مارچ 1921ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے اور اُن کا انتقال پچیس اکتوبر 1980ء کو 59 برس کی عمر میں ہوا۔ اس مناسبت سے اس سال پچیس اکتوبر کو اُن کی چوبیس ویں برسی منائی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Dc2M
ساحر لدھیانوی (درمیان میں) کی ایک یادگار تصویر، جس میں معروف شاعر جان نثار اختر (بائیں) اور بی ایس رندھاوا (دائیں) بھی نظر آ رہے ہیں
ساحر لدھیانوی (درمیان میں) کی ایک یادگار تصویر، جس میں معروف شاعر جان نثار اختر (بائیں) اور بی ایس رندھاوا (دائیں) بھی نظر آ رہے ہیںتصویر: Urdu Academy Dehli

ساحر کا اصل نام عبدالحئی تھا۔ 1938ء میں میٹرک کرنے کے بعد اُنہوں نے گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لے لیا۔ اُسی زمانے میں اُنہوں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ وہ دور پورے برصغیر پر انگریزی سامراج کے تسلط کا دور تھا۔ ساحر اُن نوجوانوں میں سے ایک تھے، جن کے دلوں میں وطن کی آزادی کی تڑپ موجود تھی۔ میرٹھ کے ایک ہفتے وار اخبار ’گرتی لہر‘ میں شائع ہونے والی اُن کی ایک نظم ’قسم اُن تنگ گلیوں کی، جہاں مزدور رہتے ہیں‘ ساحر کی پہلی نظموں میں سے ایک تھی۔

آغاز ہی سے ساحر کے فن میں سماج کی فرسودہ روایات کے خلاف بغاوت کا عنصر موجود تھا۔ وہ اپنی شاعری میں سماجی کی تلخ حقیقتوں کو نئے نئے زاویوں سے پیش کرتے تھے۔ مثلاً اپنے زمانہٴ طالب علمی ہی میں اُنہوں نے نظم ’تاج محل‘ لکھ کر بزرگوں کی پوری نسل کو چونکا دیا تھا۔ اِس نظم میں ساحر نے شاہ جہاں کی عظمت کے گیت گانے کی بجائے اُن سینکڑوں گمنام کاریگروں اور مزدوروں کے حق میں بات کی تھی، جنہوں نے اپنی محنت اور قابلیت سے اپنے شہنشاہ کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا تھا۔ ساحر کی اس نظم کا آخری حصہ کچھ یوں ہے:

ساحر لدھیانوی اپنا کلام پیش کرتے ہوئے
ساحر لدھیانوی اپنا کلام پیش کرتے ہوئےتصویر: Urdu Academy Dehli

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب! انہیں بھی تو محبت ہوگی!
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ، یہ محل
یہ منقش درو دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے

تقسیم ہند سے پہلے کے برسوں میں اپنی انگریز دشمنی کی بناء پر ساحر کو لدھیانہ چھوڑ کر لاہور جانا پڑا، جہاں اُنہوں نے اسلامیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔ لاہور میں رہتے ہوئے اُن کے فن کو اور جلا ملی، وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے اور اُن کا نام فیض، علی سردار جعفری، کیفی اور مجاز جیسے نامور شعراء کے ساتھ لیا جانے لگا۔

ترقی پسند تحریک کے علمبرداروں میں سے ایک علی سردار جعفری ساحر کو فیض کے پائے کا کوئی بڑا شاعر تو نہیں مانتے تھے تاہم وہ اُن کی نظم کی خوبصورتی کے قائل تھے، حتیٰ کہ عالمی امن کے حوالے سے ساحر کی طویل نظم ’پرچھائیاں‘ کا دیباچہ بھی اُنہوں نے ہی لکھا تھا۔ اس نظم کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے تھے۔

یہ بھارت کا شہر ممبئی ہے، جہاں ساحر لدھیانوی نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ گزارا اور اسی شہر میں پچیس اکتوبر 1980ء کو 59 برس کی عمر میں انتقال کیا
یہ بھارت کا شہر ممبئی ہے، جہاں ساحر لدھیانوی نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ گزارا اور اسی شہر میں پچیس اکتوبر 1980ء کو 59 برس کی عمر میں انتقال کیاتصویر: Getty Images

اپنے دیباچے میں علی سردار جعفری نے لکھا تھا:’’اچھی نظم کی خصوصیات وہی ہیں، جنہیں غالب نے حسن کی کیفیت بیان کرنے کے لیے چار لفظوں میں ادا کیا ہے، سادگی و پُرکاری، بے خودی و ہوشیاری۔ ان چاروں کیفیات کا امتزاج مشکل ہے لیکن جب یہ مشکل آسان ہو جاتی ہے تو نظم ایک مکمل پیکر حسن بن کر سامنے آتی ہے اور دلوں کو موہ لیتی ہے۔ ساحر نے ایک سادہ سی کہانی کو، جو بارہا ہم نے سنی ہے اور دیکھی ہے اور محسوس کی ہے اور نظر انداز کی ہے، اپنی رنگین بیانی اور آتش بیانی سے پُر کیف بنا دیا ہے۔ اُس کی سادگی اُس کے موضوع اور مواد میں ہے اور پُر کاری اُس تکنیک میں، جو شاعر نے استعمال کی ہے۔ بے خودی اس مکمل ہم آہنگی سے پیدا ہوئی ہے، جو شاعر کو اپنے موضوع سے ہے اور اس بے خودی کے عالم میں بھی اُس کے سماجی شعور نے اُسے ہوشیار رکھا ہے۔ اگر ہوشیاری نہ ہوتی تو رنگین بیانی میں آتش بیانی کی آمیزش نہ ہو سکتی اور نظم کا آخری حصہ نہ لکھا جاتا۔‘‘

ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں علی سردار جعفری نے نہ صرف اپنے دیباچے کا یہ اقتباس پڑھ کر سنایا تھا بلکہ نظم کی ’پرچھائیاں‘ کی آخری لائنیں بھی یہ کہتے ہوئے سنائی تھیں:’’ہندوستان اور پاکستان میں اس وقت دونوں طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کی بات کی جا رہی ہے اور مَیں ایٹمی ہتھیاروں کا بہت دشمن ہوں۔‘‘

گلستانِ ساحر: ساحر لدھیانوی کے آبائی شہر لدھیانہ میں ا یک خوبصورت پارک کو اُن سے موسوم کیا گیا ہے
گلستانِ ساحر: ساحر لدھیانوی کے آبائی شہر لدھیانہ میں ا یک خوبصورت پارک کو اُن سے موسوم کیا گیا ہےتصویر: Urdu Academy Dehli

کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے
تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں
جنوں کی ڈھالی ہوئی ایٹمی بلاؤں سے
زمیں کی خیر نہیں آسمان کی خیر نہیں

گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں

گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں

تقسیمِ ہند کے زمانے میں ساحر بمبئی میں ایک زیرِ تکمیل فلم ’آزادی کی راہ پر‘ کے لیے گیت لکھ رہے تھے، جس میں پرتھوی راج ہیرو تھے۔ جب مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتلِ عام اور مسلمان آبادی کے انخلاء کا سلسلہ شروع ہوا تو ساحر کی والدہ لدھیانہ ہی میں تھیں۔ مسلمان مہاجرین کے ساتھ وہ بھی لاہور پہنچ گئیں۔ ساحر بھی بمبئی سے فوراً لاہور پہنچے۔ یہاں وہ مہاجرین کی حالتِ زار اور اُن کی بے سر و سامانی دیکھ کر لرز گئے اور کہہ اٹھے:

یہ منظر کون سا منظر ہے، پہچانا نہیں‌ جاتا
سیہ خانوں سے کچھ پوچھو شبستانوں پہ کیا گزری
چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آ گئے لیکن
خدا کی مملکت میں‌ سوختہ جانوں پہ کیا گزری

اور ساحر والدہ کو لے کر واپس بمبئی چلے گئے، جہاں نغمہ نگار کی حیثیت سے ایک بے مثال کیریئر اُن کا منتظر تھا۔ اُنہوں نے جن بے شمار فلموں کے لیے گیت تحریر کیے، اُن میں جال، پیاسا، نیا دور، برسات کی رات، دل ہی تو ہے، وقت، آ گلے لگ جا، داغ، گمراہ، ہمراز، سزا، کاجل اور کبھی کبھی بھی شامل ہیں۔

’تلخیاں‘ کے نام سے ساحر کا پہلا شعری مجموعہ 1943ء ہی میں شائع ہو چکا تھا۔ ’گاتا جائے بنجارہ‘ گیتوں کا انتخاب تھا۔ ’آؤ کہ کوئی خواب بُنیں‘ اُن کا دوسرا مجموعہٴ کلام تھا، جو 1971ء میں شائع ہوا۔ اُنہیں اُن کی ادبی خدمات کے بدلے میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا، جن میں حکومتِ بھارت کی جانب سے 1971ء میں دیا جانے والی پدم شری کا اعلیٰ اعزاز بھی شامل تھا۔