1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق امریکی فوجی برگ ڈاہل پر بھگوڑا ہونے کا الزام

عابد حسین26 مارچ 2015

سارجنٹ بووی برگ ڈاہل تقریباً پانچ برس تک طالبان کی قید رہا اور پھر پانچ طالبان عسکریت پسندوں کے تبادلے میں اُسے رہائی حاصل ہوئی تھی۔ اب اُس پر امریکی فوجی حکام نے بھگوڑا ہونے کا الزام عائد کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ey25
سارجنٹ بووی برگ ڈاہلتصویر: picture alliance/AP Photo

گزشتہ روز امریکا میں سارجنٹ بووی برگ ڈاہل پر ملازمت چھوڑ کر بھگوڑا ہونے اور دشمن کے سامنے فوجی ہوتے ہوئے بھی غیر معیاری طرز عمل اختیار کرنے کے الزامات عائد کر دیے گئے۔ امریکی فوجی استغاثہ اگر نا مناسب طرز عمل اختیار کرنے کا الزام ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا تو برگ ڈاہل کو عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ اور اگر دونوں الزام درست ثابت ہو گئے تو برگ ڈاہل کو بے توقیری کے ساتھ برطرف کرنے کے علاوہ عہدہ کم کرنے اور تمام مالی بقایاجات ضبط کرنے کا حکم بھی سنایا جاسکتا ہے۔

برگ ڈاہل کے مقدمے کی باقاعدہ سماعت کا کوئی پلان نہیں دیا گیا ہے۔ یہ کارروائی امریکی فوجی قانون کے آرٹیکل 32 کے تحت کی جائے گی۔ برگ ڈاہل تین جون سن 2009 میں جنگ کی عمومی مخالفت کرنے کے بعد اچانک لاپتہ ہو گیا تھا۔ اُس کی تلاش اور بحفاظت واپسی کے لیے کئی امریکی دستے روانہ کیے گئے تھے۔ برگ ڈاہل کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ تلاش کے ایسے مشنوں کے دوران جو ہلاکتیں ہوئی ہیں، اُن کی ذمہ داری برگ ڈاہل پر عائد ہوتی ہے۔ امریکی فوجی کو طالبان نے گزشتہ برس مئی میں پانچ طالبان قیدیوں کے بدلے میں رہائی دی تھی۔

Bowe Bergdahl US Soldat Austausch in Afghanistan
سارجنٹ بووی برگ ڈاہل رہائی کے وقت، ایک طالبان کے ہمراہتصویر: REUTERS/Al-Emara

برگ ڈاہل کے وکیل یوجین فِڈل نے فوج کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے حوالے سے امریکی ٹیلی وژن نیٹ ورک MSNBC کو بتایا کہ اُن کا مؤکل پانچ برس تک طالبان کی قید میں تھا اور اُس کے اِن ایام کے دوران کا رویہ، احساسات اور ارادوں کے بارے میں امریکا میں بیٹھے افراد کچھ نہیں کہہ سکتے۔ برگ ڈاہل کے خلاف فوجی عدالتی کارروائی امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شمال میں واقع فورٹ بریگ کے فوجی مرکز میں شروع ہو سکتی ہے۔ فورٹ بریگ سے کیے گئے اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ سارجنٹ برگ ڈاہل کے رویے کی غیر جانبدارانہ انداز میں پرکھ کرنے پر تفتیش کار جس نتیجے پر پہنچے، اُن کی روشنی میں اُس پر عدالتی کارروائی شروع کی جارہی ہے۔

برگ ڈاہل کا معاملہ سیاسی بیان بازی کا بھی شکار ہے۔ صدر اوباما کی مخالف سیاسی جماعت ری پبلکن پارٹی کے اراکین کا کہنا ہے کہ وہ طالبان قیدیوں کے تبادلے کی مخالفت کرتے تھے کیونکہ یہ سارا عمل سیاسی دکھائی دیتا تھا۔ ریپبلکنز کا خیال ہے کہ طالبان شدت پسندوں کی رہائی اُس امریکی پالیسی کے منافی تھی جس میں واضح ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات ممکن نہیں۔ اِن اراکین کانگریس نے اوباما کی جانب سے گوانتانامو بے کی جیل سے شدت پسندوں کی رہائی پر بھی ناراضی کا اظہار کیا ہے کہ یہ فیڈرل قوانین کے منافی ہونے کے علاوہ کانگریس کی مشاورت کے بغیر تھا۔

امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے برگ ڈاہل کے گوانتانامو بے کے پانچ قیدیوں کے ساتھ تبادلے کو اوباما حکومت کا ایک درست قیصلہ قرار دیا ہے۔ جین ساکی کے مطابق امریکی صدر اِس معاملے پر یقین رکھتے ہیں کہ گوانتانامو کی جیل کو بند کرنا امریکی مفاد میں ہے۔