1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سائبر حملے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتے ہیں

عدنان اسحاق21 جولائی 2014

ماہرین کے مطابق آج کے دور میں تمام تکنیکی آلات کو انٹرنیٹ کے ذریعے ہی اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے اور اگر کوئی ہیکر نیویگیشن سسٹم کو ہیک کر لے تو بڑے بڑے حادثے رونما ہو سکتے ہیں اور مسافروں کی جان بھی جا سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1CgCN
تصویر: Fotolia/Stauke

انٹرنیٹ کے ذریعے آلات کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اکثر لوگوں کے ٹیلی وژن، کمپیوٹر اور موبائل فونز ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔نیویگیشن سسٹم بھی اب اسمارٹ فونز میں موجود ہیں۔ اب آفس میں موجود رہتے ہوئے گھر کے ہیٹنگ سسٹم کو کھول بھی سکتے ہیں اور بند بھی کر سکتے ہیں۔ بوخم یونیورسٹی میں کمپیوٹر کے شعبے کے ماہر کرسٹوف پار کہتے ہیں کہ جیسے ہی کسی آلے کا انٹرنیٹ سے رابط ہوتا ہے تو اسے ہیک بھی کیا جا سکتا ہے۔ ’’اگر ہیکر گھریلو استعمال کا کوئی آلہ ہیک کرتا ہے تو اُسے اس سے کوئی مالی فائدہ تو نہیں پہنچ سکتا۔ دوسری جانب اگر وہ انٹرنیٹ کے ذریعے کسی آن لائن بینکنگ کی ویب سائٹ کو ہیک کرتا ہے تو اس کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ اس طرح وہ غیر ملکی اکاؤنٹس میں رقم منتقل کر سکتا ہے‘‘۔

Symbolbild - Landgericht Köln untersagt Volumen-Drosselung der Telekom
تصویر: Fotolia/Calado

پار مزید کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل آلات کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کے رجحان میں اضافے کی وجہ سے مستقبل میں اسمارٹ ہومز ہوا کریں گے۔ ان گھروں میں موبائل فون یا ٹیبلٹ ہی کے ذریعے واشنگ مشین، ٹیلی وژن، لائٹ اور چولہے کو کنٹرول کیا جائے گا۔ اور اگر یہ آلات سائبر حملے کا نشانہ بننے لگیں تو ہیکر ایسے وقت میں چولہا کھول سکتا ہے، جب گھر میں کوئی بھی نہ ہو۔ کرسٹوف پار کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ’’ اس کی بہترین مثال گیراج کے دروازے کی ہے۔ یہ دروازے انتہائی غیر محفوظ ہوتے ہیں اور اس نظام کو بہت آسانی سے ہیک کیا جا سکتا ہے، لیکن گیراج کے دروازے کے ذریعے چوریاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔‘‘

کرسٹوف پار کے بقول اسی لیے پیشہ ور ہیکرز گھر میں استعمال ہونے والے ڈیجیٹل آلات کو عام طور پر ہیک نہیں کرتے۔

اس دوران ہیکرز کمپیوٹر نظام کی خامیاں تلاش کرتے ہیں اس میں داخل ہو کر حملہ کرتے ہیں۔ یہ خامیاں ہر اُس کمپیوٹر میں موجود ہوتی ہیں، جو بیرونی دنیا سے رابطے میں ہوتا ہے۔ ان میں صرف روایتی کمپیوٹر ہی شامل نہیں ہیں بلکہ اس طر ح بحری اور فضائی جہازوں، گاڑیوں اور گھریلو استعمال کی اشیاء کو بھی ہیک کیا جا سکتا ہے۔کلاؤس شیرر اور روڈولف ہیرزوگ نے اسی موضوع پر ایک دستاویزی فلم بنائی ہے۔ اس میں انہوں نے دکھایا ہےکہ کتنی آسانی سے گاڑیوں، جہازوں اور گھریلو استعمال میں آنے والے دیگر تکنیکی آلات ہیک کیا جا سکتا ہے۔ شیرر کہتے ہیں کہ ’ ہمیں لازمی طور پر یہ سمجھنا ہوگا کہ مختلف ڈیجیٹل آلات کا ایک دوسرے سے جڑا ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے اور ہمیں اس خطرے کا سامنا کرنا ہو گا۔ اس فلم کے لیے معلومات اکھٹی کرنے کے دوران یہ واضح ہوا کہ ٹیلی کوم یا کار ساز ادارے آؤڈی جیسی بڑی بڑی کمپنیوں کے مینیجرز سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نےسائبر حملے کے خطرے کی نشاندہی کی ہے۔ اس سلسلے میں ایک ڈیجیٹل دنیا بنانے کی ضرورت ہے، جس میں کمپنیاں ہیکنگ سے بچنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں‘‘۔

شیرر مزید کہتے ہیں کہ گاڑی کے بورڈ کمپیوٹر تک رسائی انتہائی آسان ہے۔ جیسے ہی گاڑی کا انٹرنیٹ سے رابطہ ہوتا ہے تو میوزک فائل یا گیم میں چھپے ہوئے وائرس کے ذریعے اسے ہیک کیا جا سکتا ہے۔ شیرر مزید کہتے ہیں کہ گاڑیوں میں نصب کیے جانے والے زیادہ تر ڈیجیٹل سسٹم تکنیکی اعتبار سے پرانی طرز کے ہیں۔ ’’حکام اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ زیادہ سے زیادہ گاڑیاں اور جہاز فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ ڈیجیٹل آلات کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی تشہیر کرتے ہیں اور لوگوں کو ان نئی گاڑیوں کے بارے میں بتاتے ہیں، جنہیں کمپیوٹر کی مدد سے چلایا جا سکتا ہے اور جو محفوظ بھی ہیں‘‘۔

Symbolbild USA Geheimdienst Überwachung Internet Spionage Datenspionage
تصویر: Fotolia/Gina Sanders

گزشتہ مہینوں کے دوران ہیکرز نے بڑے بڑے سرکاری اور خفیہ اداروں کے کمپیوٹر تک رسائی حاصل کرتے ہوئے اُن کی نجی معلومات چرائی ہیں۔ ان میں امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی اور وزارت دفاع کی ویب سائٹس بھی شامل ہیں۔