زندگی میں ترتیب کے لیے کوشاں ڈیزائنر
کہتے ہیں کہ ترتیب آدھی زندگی ہے۔ جرمن شہر کولون کے میوزیم برائے اپلائیڈ آرٹ میں بیس جنوری سے ایک نمائش شروع ہوئی ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ڈیزائنر روزمرہ استعمال کی مختلف چیزوں میں ترتیب لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک چھوٹی سی چیز، ہر کام کے لیے
کولون کے عجائب گھر میں ’سسٹم ڈیزائن کے ایک سو سال‘ کے عنوان کے تحت جاری نمائش میں تقریباً 150چیزیں رکھی گئی ہیں، جن میں 1921ء کا کسی فوجی افسر کے لیے بنایا گیا یہ چاقو بھی شامل ہے، جس سے ایک ساتھ کئی کام لیے جا سکتے ہیں۔
خوب سے خوب تر کی تلاش
"B 9" کے نام سے میزوں کا یہ ڈیزائن 1925ء میں مارسل باؤر نے تیار کیا تھا۔ اس کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نئے سماج کے جمالیاتی ذوق کا اظہار کرنا تھا۔ یہ میزیں صنعتی عقلیت پسندی کی بھی ایک عمدہ مثال ہیں یعنی یہ کہ جب کسی چیز کا ڈیزائن ایک مرتبہ تیار ہو جاتا ہے تو پھر اُسے آسانی سے ہر سائز میں تیار کیا جا سکتا ہے۔
’پراڈکٹ لائن‘ کی ایک مثال
1955ء میں اس ٹیلی وژن کے ساتھ اُسی طرح کا لاؤڈ اسپیکرز والا ایک ریڈیو اور ایک ریکارڈ پلیئر بھی خریدا جا سکتا تھا۔ پھر اِنہیں ایک ساتھ یا کمرے کے مختلف کونوں میں سجا کر رکھا جا سکتا تھا۔ یہ ’پراڈکٹ لائن‘ کی پہلی مثالوں میں سے ایک ہے یعنی مختلف لیکن ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھنی والی چیزیں خریدنا اور پھر اُن کی آرائش اپنے مزاج کے مطابق کرنا۔
کھیل ہی کھیل میں
لیگو برِکس بھی ’سسٹم ڈیزائن‘ کی ایک مثال ہیں، جن سے بچے بھی خوب واقف ہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی اینٹوں کو ایک دوسرے میں پھنسا کر نئی نئی چیزیں بنانے کے تصور کو سب سے پہلے 1958ء میں شہرت حاصل ہوئی تھی۔ اس طرح سے اپنی مرضی کی کوئی بھی چیز بنانے کا یہ تصور آج بھی جاری و ساری ہے۔
کینٹین میں حسن ترتیب
مختلف چیزوں کو ایک ہی انداز میں سلیقے سے پیش کرنے کا تصور گھروں کے باورچی خانوں سے نکل کر کینٹینز اور ریستورانوں میں بھی جا پہنچا، جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ ان چیزوں کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ پیالیاں اور اِن کے نیچے رکھی پلیٹیں نہ صرف دیکھنے میں ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتی تھیں بلکہ ایک دوسرے کے اوپر رکھتے ہوئے یہ کم سے کم جگہ میں بھی سما جاتی تھیں۔
مثالی فرنیچر
گھریلو استعمال کی چیزیں رکھنے کے لیے اس طرح کے شیلف سسٹم کا رواج 1960ء کے عشرے میں شروع ہوا۔ واضح اَشکال، سیدھی لائنیں اور مضبوط ڈھانچہ اس ڈیزائن کا خاصہ تھے۔ "606" شیلف سسٹم کے موجد ڈیٹر رامز تھے، جو آج ’سسٹم ڈیزائن‘ کے پہلے پہلے ڈیزائنرز میں سے ایک مانے جاتے ہیں۔ ان شیلفوں کو لوگ اپنی مرضی کے مطابق انفرادی انداز میں سجا سنوار سکتے تھے۔
ڈیزائن: چھوٹوں اور بڑوں دونوں کے لیے
بچوں کے لیے اس طرح کی رنگا رنگ کرسیوں کا ڈیزائن اٹلی کے مارکو زانُسو اور اُن کے جرمن ساتھی رچرڈ زاپر کی تخلیق تھی۔ ان دونوں کو آج ابتدائی صنعتی ڈیزائن کے اہم ترین نمائندے خیال کیا جاتا ہے۔ ان کرسیوں کو بڑی اچھی طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر رکھا جا سکتا ہے۔
کمال کا اظہار رنگ سے
کسی چیز کا ڈیزائن ایسا ہونا چاہیے کہ اُس کی ظاہری شکل ہی بتا دے کہ وہ کس معیار کی ہے۔ جرمن کمپنی براؤن نے اس پیغام کو سیاہ اور نقرئی رنگوں کے ساتھ ساتھ سادہ شکل میں پیش کر کے گاہکوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ڈیزائنر ہنس گوگیلوٹ کے مطابق یہ ڈیزائن تکنیکی کمال کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ گیند ہے یا پلیٹیں؟
ولیرائے اینڈ بوش نامی کمپنی کے تیار کردہ یہ برتن ’کرہ‘ یا گیند کہلاتے ہیں۔ یہ گیند دراصل چھوٹی بڑی اُنیس پلیٹوں پر مشتمل برتنوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے، جس کی مدد سے چار افراد سُوپ سمیت ایک مکمل کھانا کھا سکتے ہیں۔
مغربی ہی نہیں مشرقی جرمنی میں بھی
1960ء کے عشرے سے جرمنی کے مغربی ہی نہیں بلکہ مشرقی حصے میں بھی مختلف مصنوعات ’سسٹم ڈیزائن‘ کے اصول کے تحت ڈیزائن کی جانے لگیں۔ ’سسٹم 80‘ کہلانے والا یہ سوئچ بورڈ مشرقی جرمن ڈیزائنروں کی تخلیق تھا۔
نہ نظر آنے والی کامیابیاں
امریکی ڈیزائنر علی طیار کا یہ شیلف سسٹم اپنی تخلیق کے فوراً بعد سے ڈیزائن میوزیمز کی زینت بن چکا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں خصوصیت المونیم سے بنے ہوئے یہ پرزے ہیں، جن سے شیلف کو مستحکم کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ ان کی مدد سے شیلف کو مرضی کے مطابق اونچا یا نیچا رکھا جا سکتا ہے۔ شیلف کے موٹے شیشے تقریباً نظروں سے اوجھل رہتے ہیں اور کمرے کی چیزوں کے ساتھ گھُل مِل جاتے ہیں۔