1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رولا غنی، روایت شکن افغان خاتونِ اوّل

افسر اعوان27 مئی 2015

افغان خاتون اوّل نے ایک ایسے ملک میں بہت سی ایسی روایات کو توڑا ہے جہاں خواتین کو عام طور پر بند درازوں کے اندر محدود رکھا جاتا ہے۔ وہ خواتین کے خلاف تشدد سمیت بہت سے معاملات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FXCa
تصویر: Esmat Mohib

افغان صدور کی بیویاں عام طور پر پسِ پردہ ہی رہتی ہیں اور رُولا غنی وہ پہلی خاتون اوّل ہیں جنہوں نے کئی دہائیوں سے جاری اس روایت کو توڑا ہے اور وہ عوامی سطح پر دکھائی بھی دیتی ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتی ہیں۔

ان کے شوہر اشرف غنی نے آٹھ ماہ قبل جب بطور افغان صدر اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو ایک انوکھا کام انہوں نے یہ بھی کیا کہ اپنی افتتاحی خطاب میں اپنی اہلیہ کو بھی عوام سے متعارف کرایا۔ اُس وقت کے بعد سے رولا غنی وہ تمام کام کرتی رہی ہیں جو جمہوری ممالک میں عام طور پر خواتین اوّل انجام دیتی ہیں مثلاﹰ اپنے شوہر کے ساتھ عوامی ایونٹس میں شرکت اور حالات حاضرہ پر اپنی رائے کا اظہار وغیرہ۔ تاہم ان کے الفاظ ہمیشہ بڑے نپے تلے محتاط اور افغانستان کے سیاسی معاملات سے ہٹ کر ہی ہوتے ہیں۔

’’میں سیاست نہیں کرتی‘‘، یہ بات انہوں نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو اپنے ایک انٹرویو میں بتائی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ جو کام وہ ضرور کرتی ہیں وہ سننا ہے۔

گزشتہ برس ستمبر سے اب تک سینکڑوں لوگ ان سے ملاقات کر کے اپنے مسائل ان تک پہنچا اور ان کا مشورہ حاصل کر چکے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ خود کو لوگوں کے لیے ایک ’صلاح کار ۔۔۔ ایک سننے والے شخص‘ کے طور پر دیکھتی ہیں جو افغان حکومت کے دل کے قریب ہے۔

افغانستان میں رولا غنی سے قبل جو خاتون اوّل اس طرح عوامی سطح پر نظر آیا کرتی تھیں وہ قریب ایک صدی قبل کی بات ہے تاہم آج بہت ہی کم لوگوں کو ملکہ ثریا کے بارے میں یاد ہو گا جنہیں 1929ء میں ان کے شوہر بادشاہ عبداللہ کو بے دخل کیے جانے کے بعد جبری طور پر ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ ملکہ ثریا کی طرف سے خواتین کے معاملات میں جدید انداز اپنانے اور نقاب لینے سے انکار نے بہت سے افغانوں کو حیرت زدہ کر دیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ بادشاہت کے خاتمے کی ایک وجہ ملکہ کا یہ رویہ بھی تھا۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی کی اہلیہ زینت قریشی کرزئی کو ’مخفی خاتون اوّل‘ کہا جاتا تھا اور اپنے ایک بہت ہی نادر انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان ایک خاتون اوّل کو اپنے شوہر کے ساتھ کھڑا دیکھنا نہیں چاہتا۔

ان کے الفاظ ہمیشہ بڑے نپے تلے محتاط اور افغانستان کے سیاسی معاملات سے ہٹ کر ہی ہوتے ہیں
ان کے الفاظ ہمیشہ بڑے نپے تلے محتاط اور افغانستان کے سیاسی معاملات سے ہٹ کر ہی ہوتے ہیںتصویر: Esmat Mohib

رولا غنی افغان ہیں تاہم ان کی پیدائش لبنان میں ہوئی تھی جبکہ وہ امریکا میں رہی ہیں۔ وہ انگریزی، فرانسیسی، عربی اور دری زبانیں روانی سے بولتی ہیں۔ 1948ء میں پیدا ہونے والی رولا غنی ایک مسیحی خاندان میں پلی بڑھیں اور ان کی اپنے مستقبل کے شوہر یعنی اشرف غنی سے ملاقات بیروت یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ شادی کے بعد یہ جوڑا امریکا منتقل ہو گیا جہاں وہ 30 برس تک مقیم رہے۔ انہوں نے امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی سے صحافت کی ڈگری لی جبکہ ان کے دو بچے ہیں۔ بیٹی مریم ایک آرٹسٹ ہیں اور بروکلین میں رہتی ہیں جبکہ بیٹا طارق اکانومسٹ ہے اور وہ بھی امریکا میں ہی مقیم ہے۔

تاہم ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے افغان خاتون اوّل کا کہنا تھا کہ وہ 12 برس قبل افغانستان لوٹی تھیں اسی باعث انہیں افغانستان کے معاملات اور مسائل کا بھی بخوبی اندازہ ہے۔