1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس کے خلاف نئی يورپی پابندياں، دو دھاری تلوار

عاصم سليم29 جولائی 2014

برسلز ميں آج يورپی يونين کے رکن ممالک کے سفارت کاروں کا مشاورتی اجلاس جاری ہے۔ اس اجلاس ميں يوکرائنی بحران کے تناظر ميں روس کے خلاف تازہ اور سخت نوعيت کی پابنديوں کے اطلاق پر حتمی فيصلہ کيا جانا ہے۔

https://p.dw.com/p/1ClqT
تصویر: imago/Rainer Unkel

يوکرائنی بحران ميں مبينہ روسی کردار اور بالخصوص سترہ جولائی کو مشرقی يوکرائن ميں مبينہ طور پر روس نواز باغيوں کی طرف سے ملائيشيا ايئر لائنز کے مسافر طيارے کو گرائے جانے کے بعد بالآخر يورپی يونين نے روس کے خلاف پابنديوں کے دائرہ کار کو بڑھانے کا فيصلہ کر ليا ہے۔ روس کے خلاف معاشی پابنديوں کے اطلاق کے بارے ميں اتفاق رائے رکن ممالک کے سفارت کاروں کے پچھلے جمعے کے روز برسلز ميں منعقدہ اجلاس ميں ہوا۔ بعد ازاں رواں ہفتے کے آغاز پر پير کی شب امريکی، برطانوی، جرمن، فرانسيسی اور اطالوی رہنماؤں نے ٹيلی فونک کانفرنس ميں ماسکو کے خلاف سخت تر اقدامات پر اتفاق کيا۔

آج برسلز ميں يورپی يونين کے سفارت کار ماسکو کے خلاف جن تازہ پابنديوں کو حتمی شکل دے رہے ہيں، ان کے ذريعے عالمی مالياتی منڈيوں ميں روسی شراکت کو محدود کيا جائے گا جبکہ ہتھياروں کی صنعت اور ٹيکنالوجی کے شعبے پر بھی پابندياں عائد کی جائيں گی۔

2013ء ميں يورپی يونين اور روس کے مابين تجارت کا حجم 336 بلين يورو تھا
2013ء ميں يورپی يونين اور روس کے مابين تجارت کا حجم 336 بلين يورو تھاتصویر: Andrey Sinitsin/AFP/Getty Images

2013ء ميں يورپی يونين اور روس کے مابين باہمی تجارت کا حجم 336 بلين يورو يعنی قريب 451 بلين ڈالر تھا۔ جرمنی اس ميں سے قريب 90 بلين يورو کی تجارت کا شراکت دار ہے جبکہ يورپ کی سب سے مستحکم معيشت نے روس ميں بھی کافی سرمايہ کاری کر رکھی ہے۔

يورپی يونين کی قريب ايک تہائی گيس کی ضروريات روسی ترسيلات کی مدد سے پوری ہوتی ہيں اور يہی وجہ ہے کہ پابنديوں کا يہ عمل کا فی پيچيدہ ہے۔ عالمی مالياتی فنڈ نے متنبہ کر رکھا ہے کہ تازہ اقدامات سے روس کے ساتھ براہ راست اقتصادی روابط رکھنے والی رياستيں بالخصوص وسطی و مشرقی يورپی رياستيں سب سے زيادہ متاثر ہوں گی۔ اندازوں کے مطابق مجوزہ پابنديوں کے اطلاق کے نتيجے ميں 2015ء تک يورپی معيشت ميں سالانہ بنيادوں پر 0.3 تا 0.4 تک کی کمی متوقع ہے، جو پہلے ہی سے ڈگمگاتی ہوئی يورپی معيشت کے ليے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتی ہے۔ تازہ پابنديوں کے اطلاق سے روسی مجموعی قومی پيداوار ميں 1.5 فيصد سے لے کر 4.8 فيصد تک کی کمی کا امکان ہے۔

ماسکو حکومت اپنے قريب ايک سو اشخاص و کمپنيوں کے خلاف يورپی يونين کی طرف سے عائد کردہ سفری پابنديوں اور ان کے اثاثے منجمد کيے جانے کو بے اثر اور منفی قرار ديتے ہوئے مسترد کر چکی ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ ماضی ميں کيوبا، زمبابوے اور ايران کے خلاف مغربی ممالک کی پابندياں متنازعہ ثابت ہوئی ہيں۔ وہ بر وقت مطلوبہ مقاصد حاصل نہ کر سکيں اور گرچہ پابنديوں کا نشانہ بننے والے ممالک کو خاصے نقصانات پہنچے تاہم اکثر اوقات متاثرہ ممالک پابنديوں کے باوجود کوئی دوسرا راستہ تلاش کرنے ميں بھی کامياب رہے۔