’روس میں ٹرین سرفنگ‘ ایک خطرناک کھیل
2 ستمبر 201418 سالہ روسی نوجوان ساشا نے بتایا وہ دس سال کا تھا جب سے وہ ٹرین میں سفر کر رہا ہے۔ وہ روسی دارالحکومت کے ایک نواحی علاقے میں رہتا تھا اور ہر روز ٹرین کے ذریعے ماسکو آیا جایا کرتا تھا۔ تاہم وہ اپنے اس سفر کے دوران ٹرین میں دیگر مسافروں کے ساتھ نہیں بیٹھتا تھا بلکہ وہ یہ مسافت ٹرین کی چھت پر بیٹھ کر طے کرتا تھا۔ وہ بتاتا ہے کہ جیسے ہی ٹرین کے پہیے گھومنا شروع ہوتے تھے وہ پلیٹ فارم پر بھاگتا ہوا ٹرین کی چھت پر پہنچ جاتا تھا۔ ساشا کی طرح دیگر روسی نوجوان کی بھی اسی طرح کے پر خطر کھیلوں میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ نوجوان اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے نہ تو تیز رفتاری کا خیال کرتے ہیں اور نہ ہی حکام کو خاطر میں لاتے ہیں۔ یہ خود کو ’ zatsepen ‘ کہتے ہیں، جس کا مطلب چمٹنا ہے۔
ساشا نے مزید بتایا کہ ’’ مجھے یہ اندازہ ہی نہیں کہ میں ٹرین کی چھت پر بیٹھ کر کتنے کلومیٹر کا سفر کر چکا ہوں۔ میں دن رات اپنی جان خطرے میں ڈالتا رہتا تھا اور اسکول تک نہیں جاتا تھا۔‘‘ ساشا مزید کہتا ہے کہ اگر آپ نشے میں نہ ہوں تو کوئی خطرہ نہیں ہے‘‘۔ وہ مزید کہتا ہے کہ اس کا ایک دوست الکوحول پی کر ٹرین پر چڑھ گیا اور اسی باعث رونما ہونے والے ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ 14سالہ ولادی میر ساشا کا دوست ہے اور وہ گزشتہ ایک برس سے ٹرین سرفنگ کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ٹرین کی چھت پر بیٹھ کر چیزوں کو تیزی سے گزرتے ہوئے دیکھنے سے آزادی کا احساس ہوتا ہے اور اس وقت کوئی بھی آپ کو روک نہیں سکتا۔ ٹرین سرفنگ کے دوران اگر پولیس پکڑ لے تو سو روبل کا جرمانہ ہوتا جو ڈھائی یورو بنتے ہیں۔ ساشا کہتا ہے کہ ’’ اس سے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوتا بلکہ اپنی سلامتی کی فکر کرنے کے بجائے پولیس کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہمیں زیادہ توجہ حاصل ہوتی ہے۔‘‘
ساشا مزید کہتا ہے کہ لوکل ٹرینوں کی چھتوں پر سفر کرنا بہت آسان ہے اور اب وہ ایسا کرتے کرتے اب تھک چکا ہے’’ میں اب ماسکو اور سینٹ پیٹرس برگ کے درمیان چلنے والی تیز رفتار ٹرین پر سرفنگ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس ٹرین کی رفتار 250 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔zatsepen صرف ٹرین کی چھت پر ہی نہیں بیٹھے رہتے بلکہ یہ نوجوان بوگیاں پھلاندتے ہوئے آگے بھی بڑھتے ہیں اور کبھی کبھار ایک ہاتھ کے بل پر ٹرین سے لٹک بھی جاتے ہیں۔
جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے نوجوانوں میں بھی یہ جنون پایا جاتا ہے۔ اس کھیل میں زخمی ہونا معمول کی بات ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ غیر نصابی سرگرمیوں کے فقدان اور نوجوانوں میں ہیرو بننے یا ایسا کردار ادا کرنے کی خواہشات انہیں جان جوکھوں میں ڈالنے پر اکساتی ہیں۔