1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس ميں يوکرائنی جنگ کی مخالفت، ہزاروں افراد سڑکوں پر

عاصم سليم22 ستمبر 2014

يوکرائنی جنگ کی مخالفت ميں ہزاروں روسی باشندوں نے دارالحکومت ماسکو میں احتجاج کیا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق مارچ ميں شريک مظاہرين ماسکو حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ يوکرائن ميں اپنی مبينہ ’مخفی مداخلت‘ بند کرے۔

https://p.dw.com/p/1DGcq
تصویر: Reuters/Maxim Zmeyev

مشرقی يوکرائن ميں سرگرم روس نواز عليحدگی پسندوں اور کييف کے درميان مسلح تنازعے کے آغاز کے بعد سے اب تک روس ميں اس تنازعے کی مخالفت ميں نکالی جانے والی يہ اپنی طرز کی پہلی بڑی ريلی تھی۔ دارالحکومت ماسکو ميں ہزاروں افراد نے مارچ کيا اور قريب تين ہزار افراد کی ہلاکت اور يوکرائينيوں اور روسيوں کو ايک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کرنے والے اس تنازعے ميں کريملن کے مبينہ کردار کی مذمت کی۔

يہ مارچ اس ليے بھی اہميت کی حامل ہے کيونکہ 2012ء ميں روسی صدر ولاديمير پوٹن کی تيسری مدت صدارت کے آغاز سے لے کر اب تک کا يہ سب سے بڑا عوامی احتجاجی مظاہرہ تھا۔

يوکرائنی صدر پيٹرو پوروشينکو
يوکرائنی صدر پيٹرو پوروشينکوتصویر: dpa

مارچ کے چند شرکاء نےيوکرائن کے پرچم سے مشابہت رکھنے والے پيلے اور نيلے رنگ کے لباس پہن رکھے تھے اور چند ايک نے يوکرائن کے جھنڈے بھی اٹھا رکھے تھے۔ يہ افراد ’يوکرائن کے ليے امن، روس کے ليے آزادی اور پوٹن کے ليے جيل‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ چند افراد نے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے، جن پر لکھا تھا، ’’ہميں معاف کر دو يوکرائن، پوٹن جھوٹ بولنا بند کرو۔‘‘

احتجاجی ريلی ميں شامل چند افراد نے يوکرائن ميں روسی دستوں کی تعيناتی کی بھی مذمت کی۔ ايک 73 سالہ خاتون مارينہ بيگروونيکووا نے ايک پلے کارڈ پکڑ رکھا تھا، جس پر مندرجہ ذيل الفاظ درج تھے، ’’ميں نہيں چاہتی کہ ہمارے لڑکے يوکرائن ميں بھی اسی طرح ہلاک ہوں، جس طرح وہ چيچنيا اور افغانستان ميں ہلاک ہوئے۔‘‘

’دا پيس مارچ‘ کے عنوان سے نکالی جانے والی يہ ريلی قريب دو گھنٹے تک جاری رہی اور اس ميں روسی عوام کے علاوہ کئی اہم شخصيات اور سابقہ سرکاری اہلکاروں نے بھی شرکت کی۔ مارچ کے ايک منتظم سيرگئی ديويدس کے بقول ماسکو ميں نکالی گئی ريلی ميں قريب چاليس ہزار افراد نے شرکت کی۔ دارالحکومت کےعلاوہ روس کے ديگر کچھ شہروں سے بھی اسی طرز کی مگر چھوٹی ريليوں کی اطلاعات ملی ہيں۔

ٹيلی وژن پر پوروشينکو کا خطاب

ادھر يوکرائنی صدر پيٹرو پوروشينکو نے اتوار کے روز کہا ہے کہ مشرقی و جنوبی يوکرائن ميں سرگرم روس نواز باغيوں کے ساتھ نافذ العمل امن منصوبے کی ناکامی کی صورت ميں يوکرائن کو اپنے دفاع کے ليے تيار رہنا چاہيے۔ پوروشينکو نے يہ بات قومی ٹيلی وژن پر اپنے خطاب کے دوران کہی۔ انہوں نے مطلع کيا کہ پانچ ماہ سے جاری لڑائی کی وجہ سے يوکرائنی فوج کا پينسٹھ فيصد عسکری ساز و سامان تباہ ہو چکا ہے۔ صدر پوروشينکو نے يہ بھی بتايا کہ انہوں نے اپنے حاليہ امريکا اور کينيڈا کے دوروں میں عسکری ساز و سامان حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کیے ہیں۔

يوکرائنی صدر نے اپنے خطاب ميں يہ بھی واضح کيا کہ فريقين کے مابين کشيدگی ميں کمی ان کی اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ بات چيت کے بعد عمل ميں آئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’بات چيت کے اس عمل کے بغير آج کوئی امن معاہدہ نہيں ہوتا۔‘‘