’دنیا کو درپیش خطرات‘، سالانہ رپورٹ
17 ستمبر 2014افغانستان اور ہالینڈ میں کون سی قدر مشترک ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک ورلڈ انڈکس پر سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ملکوں میں شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مصنفین نے سمندر کے کنارے واقع ہونے کے سبب ہالینڈ کو خطرات سے دوچار ملک قرار دیا ہے جبکہ اس یورپی ملک کے ناگہانی آفات سے بچاؤ اور صحت عامہ کے نظام اور وہاں کی گُڈ گورننس کو مثالی مانا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس افریقی ملک اریٹریا کو بہت کم خطرات کا شکار ملک قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس ملک میں ناگہانی آفات سے بچنے کا نظام ناقص اور صحت عامہ کی سہولیات ناکافی ہیں تاہم اسے ناگہانی آفات سے بہت کم خطرات لاحق ہیں۔
2014ء کی ’عالمی خطرات‘ کی اس رپورٹ سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ مہلک وائرس ایبولا کے شکار مغربی افریقی ممالک سے کہیں زیادہ خطرات جاپان جیسی مضبوط معیشی طاقت کو لاحق ہیں۔
جنگ ناگہانی آفت نہیں ہے
امریکا کو اتنے ہی خطرات لاحق ہیں جتنے کہ برازیل اور ارجنٹائن کو تاہم نہایت دلچسپ امر یہ ہے کہ بحران زدہ عرب ریاست شام کا شمار بہت ہی کم خطرات سے دوچار ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ کو ناگہانی آفت نہیں کہا جا سکتا اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر اس بار کی رپورٹ میں توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
ہالینڈ ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سمندر کے پانی کی سطح کافی بلند ہے۔ متعدد امریکی ریاستیں مشرقی ساحلی علاقے پر واقع ہیں۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا اور جاپان دونوں کو زلزلوں کے بہت زیادہ خطرات کا بھی سامنا ہے۔ ڈوئچے ویلے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس پروجیکٹ میں شامل ایک جرمن ماہر پیٹر موکے نے کہا کہ یہ دونوں ممالک بہترین تجارتی مواقع کے حامل ہونے کے باوجود مسلسل ناگہانی آفات کے خطرات سے دو چار رہتے ہیں۔
وبائی خطرات
’عالمی خطرات‘ انڈکس میں وباؤں کو بھی ناگہانی آفات نہیں کہا گیا ہے تاہم اس رپورٹ میں ایبولا وائرس کی حالیہ مہلک وبا کا ذکر شامل کیا گیا ہے۔ جرمن ماہر پیٹر موکے اس بارے میں کہتے ہیں، "معاشرتی صورتحال سے متعلق ہمارے جائزے اس امر کا احاطہ بھی کرتے ہیں کہ ایبولا جیسی وبا کا امکان کب اور کہاں ہو سکتا ہے۔ ہم یہ ظاہر کر دیتے ہیں کہ کون کون سے ممالک اس قسم کی وبا کے پھیلاؤ کی صورت میں فوری اقدامات کر سکتے ہیں یعنی وہاں ہسپتالوں میں وبا سے پیدا شدہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی کتنی گنجائش ہے، ان کا ریسکیو کا نظام کتنا مؤثر ہے، یہاں تک کہ ان ممالک میں قرنطینہ مراکز کی کتنی سہولیات میسر ہیں"۔ جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ ان تمام معاملات میں کلیدی اہمیت ان امور کو حاصل ہوتی ہے کہ کسی ملک کے باشندوں کا رہن سہن کیسا ہے اور وہاں حکومت کی انتظامی صلاحیتیں کیسی ہیں۔
اس رپورٹ میں 171 ممالک کا آپس میں موازنہ کرتے ہوئے ایک فہرست مرتب کی گئی ہے۔ اس فہرست میں سب سے اوپر قطر، مالٹا اور سعودی عرب کے نام ہیں، جن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اُنہیں سب سے کم خطرات کا سامنا ہے۔ اس فہرست میں سب سے نیچے وانُوآٹُو، فلپائن اور ٹونگا کے نام ہیں، جنہیں سب سے سے زیادہ امکانی خطرات سے دوچار قرار دیا گیا ہے۔