دنیا کا پہلا ’لائٹ آرٹ میوزیم‘
جرمن شہر اُونا میں قائم سنٹر فار انٹرنیشنل لائٹ آرٹ دنیا کا پہلا اور اکلوتا میوزیم ہے جس میں روشنی کی مدد سے فن پارے تیار کیے گئے ہیں۔ یہ میوزیم ایک سابق برُوری یا شراب کشید کرنے والی فیکٹری میں زیر زمین قائم کیا گیا ہے۔
نیلے اور سرخ آنسو
1979ء میں بند کر دی جانے والی لِنڈن برُوری کی راہداریوں اور اسٹوریج کے لیے استعمال ہونے والے کمروں میں آرٹسٹوں نے اپنے فن پارے تخلیق کیے ہیں۔ انہی میں سے ایک ’ٹنل آف ٹیئرز‘ یعنی آنسووں کی سرنگ بھی ہے۔ اس میں سرخ اور نیلی فلوریسنٹ لائٹ کا استعمال کیا گیا ہے۔
روشنی سے اندھیرے کی جانب
یہ زیر زمین میوزیم کئی ہزار مربع میٹر کے رقبے میں قائم ہے۔ جان فان مُنسٹر روشنی کو اس برُوری کے تہہ خانے میں چھائے اندھیروں میں لے آئے ہیں۔ اِس میوزیم میں گھومنے کے لیے ایک گائیڈ کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔
روشنی کا لمس
جیمز ٹوریل نے اس میوزیم میں دو بڑے فن پارے تخلیق کیے ہیں۔ ان میں سے ایک ’’فلوٹر 99‘‘ ہے جس میں عمارت کا طرزِ تعمیر نیلگُوں اور جامنی روشنیوں میں ضم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
جنت کا کھوج
روشنی کی مدد سے آرٹ تخلیق کرنے کے سرخیل جیمز ٹوریل کا یہ کام دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے کمرے میں روشنی فرش پر لگے ایک لینز سے گزرتی ہے جس کے باعث مختلف چھوٹی چھوٹی حرکات بڑی دکھائی دیتی ہیں۔ دوسرے حصے میں مصنوعی اور قدرتی روشنی کی مدد سے ماحول ترتیب دیا گیا ہے۔
جیومیٹریکل لائٹ
فرانسوا موریلے نے ’نو اینڈ نیون‘ نامی اس تکنیکی فن پارے کے لیے ایک پرانے ریفریجریٹر کو استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مختلف زاویوں سے نو نیون لائٹوں کو استعمال کیا ہے۔ یہ ٹیوبز حرکت کی صورت میں روشنی کو مختلف زاویوں پر منعکس کرتی ہیں۔
برُوری کے پھول
ریبیکا ہورن جرمنی کے معروف ترین آرٹسٹوں میں شمار ہوتی ہیں۔ انہوں نے روشنیوں کی مدد سے بنائے گئے ماحول کو ’لوٹس شیڈو‘ کا نام دیا ہے یعنی کنول کا عکس۔ سمندر میں اگنے والے پھولوں کی طرح تانبے سے بنے لیمپ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔
شیڈو پلے
کرسٹیان بولٹانسکی اندھیرے کے باعث پیدا ہونے والے اندرونی خوف سے کھیلتے ہیں۔ ان کے کام میں شیطان اور چڑیلوں جیسی اشکال اس طرح سے روشن کی گئی ہیں کہ ان کی شبیہات دیواروں پر ناچتی محسوس ہوتی ہیں۔
درخشاں سُر
ساؤنڈ آرٹسٹ کرسٹیان کُوبش نے روشنی سے سُر اجاگر کرنے کے لیے 172 اسپیکرز استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا ماحول ترتیب دیا ہے جس میں آپ خود کو تیرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔
لائٹ کیسز
ڈنمارک کے آرٹسٹ اولافر ایلیاسن نے آرٹ اور سائنس کا ایک حسین امتزاج ترتیب دیا ہے۔ یہاں آپ خود کو روشنی پر چلتے محسوس کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ روشنی پانی کی طرح نیچے بہہ رہی ہے۔
دی اسپیڈ آف لائٹ
روشنی کی رفتار نامی یہ ماحول برُوری کے داخلی راستے پر ترتیب دیا گیا ہے۔ روشنی کی مدد سے تیار کیے گئے ان بہت کم فن پاروں میں سے یہ ایک ہے جو سطح زمین سے اوپر بنائے گئے ہیں۔