دنیا بھر میں موت کی سزاؤں میں اضافہ، ایمنسٹی کی سالانہ رپورٹ
1 اپریل 2015حقوقِ انسانی کے علمبردار اس بین الاقوامی ادارے نے، جس کا ہیڈکوارٹر لندن میں ہے، اپنی یہ رپورٹ بدھ یکم اپریل کو جاری کی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے:’’مختلف ممالک کی جانب سے ریاستی سلامتی کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے موت کی سزا کو استعمال کرنے کا پریشان کن رجحان پوری دنیا میں نظر آ رہا ہے اور چین، پاکستان، ایران اور عراق ’دہشت گردی‘ کے الزام میں لوگوں کو پھانسی دے رہے ہیں۔‘‘
ایمنسٹی کی اس سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جہاں 2013ء میں 1925 افراد کو موت کی سزائیں سنائی گئیں، وہاں گزشتہ سال پچپن مختلف ملکوں میں یہ تعداد 2466 ریکارڈ کی گئی۔ ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق اس اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ نائجیریا اور مصر میں زیادہ افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔
نائجیریا میں 2013ء میں 141 افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ 2014ء میں یہ تعداد کئی گنا اضافے کے ساتھ بڑھ کر 659 تک جا پہنچی۔ ان میں وہ ستّر فوجی بھی شامل تھے، جنہیں بوکو حرام کے خلاف لڑائی کے دوران بغاوت کا مرتکب ہونے کی بناء پر فوجی عدالتوں کی جانب سے موت کی سزائیں سنائی گئیں۔
مصر میں، جہاں 2013ء میں چار سو افراد کے لیے سزائے موت کے عدالتی فیصلے سامنے آئے، وہاں 2014ء میں عدالتوں نے کم از کم 509 افراد کو موت کی سزائیں سنائیں۔
ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء میں بھی شمالی کوریا، ایران اور سعودی عرب بدستور اُن بہت سے ممالک میں شامل رہے، جو ’سیاسی منحرفین کو کچلنے کے لیے سزائے موت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں‘۔
ایمنسٹی کے سیکرٹری جنرل سلیل شیٹی نے کہا ہے:’’یہ بات شرم ناک ہے کہ دنیا بھر کے بہت سے ممالک لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، ’دہشت گردی‘ کے الزام میں یا پھر داخلی عدم استحکام کو روکنے کے لیے موت کی سزائیں دے رہے ہیں۔‘‘
اس رپورٹ میں ایمنسٹی نے بہرحال یہ بھی بتایا ہے کہ موت کی سزاؤں پر عملدرآمد میں گزشتہ برس 20 فیصد سے زائد کے حساب سے کمی دیکھنے میں آئی۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال چین کو چھوڑ کر بائیس مختلف ممالک میں کم از کم 607 افراد کی موت کی سزاؤں پر عملدرآمد کیا گیا۔ اس کے مقابلے میں 2013ء میں 778 افراد کی سزاؤں پر عملدآرمد ہوا تھا۔ اکیلے چین میں باقی تمام دنیا کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں موت کی سزاؤں پر عملدرآمد کیا جاتا ہے تاہم اس تعداد کی ایک سرکاری راز کی طرح حفاظت کی جاتی ہے اور اصل تعداد ظاہر نہیں کی جاتی۔
پاکستان میں آج کل دہشت گردوں کو ہی نہیں بلکہ سزائے موت کے دیگر قیدیوں کی سزاؤں پر بھی تیزی سے عملدرآمد جاری ہے، جس پر ایمنسٹی نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اسی دوران جرمن حکومت کے مندوب برائے انسانی حقوق کرسٹوف شٹریسر نے، جنہوں نے ابھی مارچ میں پاکستان کا دورہ کیا تھا، ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں پاکستان میں موت کی سزاؤں پر پھر سے عملدرآمد شروع ہو جانے پر تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اور لاہور میں پاکستان کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں میں انہیں یہ تاثر ملا کہ اب وہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا موضوع غالب ہے۔
شٹریسر نے کہا کہ اُن کے خیال میں موت کی سزا دہشت گردی کے انسداد کے لیے کوئی مؤثر ہتھیار نہیں ہے اور پاکستان میں اپنی ملاقاتوں میں اُنہوں نے یہ بات واضح طور پر کہی۔ اب دہشت گردوں کو ہی نہیں بلکہ سزائے موت پانے والے دیگر قیدیوں کی سزاؤں پر بھی عملدرآمد کے بعد اُس جواز کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں، جو ان سزاؤں کو پھر سے جاری کرنے کے سلسلے میں پیش کیا گیا تھا۔