1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دريائے سندھ کی نابينا ڈولفن کو لاحق خطرات

عاصم سليم4 نومبر 2014

پاکستانی دريائے سندھ کی نابينا ڈولفن ايک عرصے سے ماحولياتی ماہرين و سياحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی ہيں۔ ان دنوں ان مچھليوں کو کئی وجوہات کے سبب متعدد خطرات لاحق ہيں اور ماہرين ان کے بچاؤ کے ليے کوششيں جاری رکھے ہوئے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1DgYx
تصویر: picture-alliance/dpa/Alexandra Mudrats

پاکستان کے دريائے سندھ ميں پائی جانی والی اندھی ڈولفن مچھليوں کے بارے ميں کون نہيں جانتا۔ البتہ يہ بات بہت کم ہی لوگ جانتے ہيں کہ کہانيوں کے مطابق در اصل يہ ايک عورت تھی، جسے کھانا کھلانا بھولنے پر ايک مقامی بزرگ نے بد دعا دی اور وہ ايک مچھلی ميں تبديل ہو گئی۔

دريائے سندھ کے چند مخصوص حصوں ميں پائی جانے والی ڈولفن مچھليوں کا شمار دنيا کے ناياب ترين مماليہ جانوں ميں ہوتا ہے۔ دريا کے قريب بارہ سو کلوميٹر کے رقبے پر پھيلے ہوئے ايک مخصوص حصے ميں اس وقت چودہ سو کے لگ بھگ ڈولفن مچلياں موجود ہيں۔ ’انٹرنيشنل يونين فار کنزرويشن آف نيچر‘ (IUCN) ان مچھليوں کو بقاء کے خطرے سے دوچار قرار ديتی ہے۔ ادارے کے مطابق 1944ء سے اب تک ان مچھليوں کی تعداد ميں پچاس فيصد کی کمی واقع ہو چکی ہے۔

مون سون بارشوں کے بعد يہ مچھلياں تالابوں وغيرہ ميں پھنس جاتی ہيں
مون سون بارشوں کے بعد يہ مچھلياں تالابوں وغيرہ ميں پھنس جاتی ہيںتصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

جنوبی صوبہ سندھ کے دريا ميں ہزاروں سالوں سے تيرنے والی ان نابينا ڈولفن مچھليوں کو ان دنوں متعدد وجوہات کی بناء پر خطرات کا سامنا ہے۔ انسانوں کی طرف سے بنائے جانے والے ڈيموں سے ان مماليہ جانوروں کا ماحول متاثر ہو رہا ہے جب کہ بدانتظامی انداز ميں جاری ماہی گيری بھی ايک مسئلہ ہے۔ تحفظ ماحول کے ليے سرگرم کارکن کوشش ہے کہ ڈولفن مچھليوں اور دريائے سندھ ہی ميں پائے جانے والے کالے رنگ کے دھبوں والے کچھوں کو غيرقانونی شکاريوں سے بچايا جا سکے۔

کاشت کاری کے ليے پانی دستياب بنانے کے مقصد سے انيسويں صدی کے اواخر ميں دريائے سندھ کے اس حصے ميں کئی ڈيم بنائے گئے، جہاں يہ ڈولفن مچھلياں پنپتی ہيں۔ اس کے نتيجے ميں يہ مچھلياں دريا کے سترہ مختلف ’سيکشنز‘ يا حصوں ميں پھيل گئيں۔ برطانيہ کی سينٹ اينڈروز يونيورسٹی کے ماہرين کی جانب سے PLoS One نامی ايک ماحولياتی جريدے ميں حال ہی ميں جاری کردہ ايک مطالعے کے مطابق سترہ ميں سے دس مقامات پر يہ ڈولفن مچھلياں ختم ہو چکی ہيں اور باقی مقامات پر بھی انہيں ’تنہائی‘ کے سبب خطرہ لاحق ہے۔

پاکستان ميں مون سون بارشوں کے بعد جب دريا کا پانی اترتا ہے، تو يہ مچھلياں تالابوں وغيرہ ميں پھنس جاتی ہيں، جہاں انہيں خوراک کی کمی کا سامنا رہتا ہے۔ ڈولفن مچھليوں کو ايک اور خطرہ شکاريوں سے لاحق ہوتا ہے۔ جب يہ مچھلياں سانس لينے کے پانی کی سطح پر آتی ہيں، تو ان کی ناک مچھيروں کے جالوں ميں پھنس جاتی ہيں۔

ورلڈ وائلڈ لائف کے ڈولفن مچھليوں کے تحفظ سے متعلق پروگرام سے منسلک ايک کارکن محمد عمران ملک نے نيوز ايجنسی اے ايف پی کو بتايا کہ ان مچھليوں کو ہر ايک سے دو منٹ ميں سانس لينے کے ليے سطح پر آنا پڑتا ہے اور عين اسی وقت پتلے پتلے جال ميں وہ پھنس جاتی ہيں۔ يہ امر اہم ہے کہ ورلڈ وائلڈ لائف نے دريا کے دونوں اطراف مقامی کميونٹيوں کے نيٹ ورک بنا رکھے ہيں، جو اس انداز ميں پھنس جانے والی ڈولفنر کی مدد کرتے ہيں۔ اس کے علاوہ مقامی ماہی گيروں ميں اس حوالے سے آگہی پھيلانے کے ليے بھی مہم چلائی جا رہی ہے۔

دريں اثناء ڈولفن مچھليوں کی بقاء کے ليے جاری جدوجہد کے دوران ايک اور مسئلہ بھی آن کھڑا ہوا ہے۔ اسمگلرز نے دريا سندھ کے انہی حصوں ميں پائے جانے والے کالے رنگ کے دھبوں والے کچھوں کو پکڑنا شروع کر ديا ہے، جنہيں چين اور تھائی لينڈ اسمگل کيا جاتا ہے۔