1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دروازہ بیچنے والا فلسطینی پشیمان

عاطف بلوچ1 اپریل 2015

ایک فلسطینی شہری اپنے تباہ شدہ گھر کا مرکزی دروازہ ایک مقامی آرٹسٹ کو سستے داموں بیچنے پر خود کو کوس رہا ہے کیونکہ اسے علم نہیں تھا کہ جنگ سے تباہ حالی کے بعد وہ دروازہ کوئی عام شے نہیں رہا تھا۔

https://p.dw.com/p/1F17K
غزہ کے دورے کے دوران بینکسی نے یہ گرافٹی بھی تخلیق کی تھیتصویر: Reuters/Suhaib Salem

اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ جنگ کے دوران جہاں غزہ پٹی میں سینکڑوں گھر تباہ ہوئے تھے، وہیں اسرائیلی بمباری کی زد میں ربیع داردونہ کا گھر بھی آ گیا تھا۔ غربت اور بے بسی کے عالم میں ربیع نے اپنے تباہ شدہ گھر کا مرکزی دروازہ ایک مقامی آرٹسٹ کو صرف 175 ڈالر کے برابر رقم میں فروخت کر دیا تھا۔

اس وقت تک ربیع کو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ اس دروازے پر جو پینٹنگ بنائی گئی تھی، وہ کسی عام آرٹسٹ کی نہیں بلکہ مشہور زمانہ گرافیٹی پینٹر Banksy کی تخلیق کردہ تھی۔ گو کہ ابھی تک کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ برطانوی ’اسٹریٹ آرٹسٹ‘ بینکسی اصل میں کون ہے، لیکن اس کے فن پارے انتہائی مقبول ہیں۔ ’بلیک ہیومر‘ کے ماہر اس آرٹسٹ کا ایک ایک فن پارہ پانچ لاکھ ڈالر میں فروخت ہوتا ہے۔

بینکسی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایسے مقامات پر پہنچ کر دیواروں، دروازوں اور ایسے دیگر اشیاء پر گرافیٹی کرتا ہے، جن کے بارے میں کوئی عام شخص سوچ بھی نہیں سکتا۔ بینکسی نے گزشتہ برس غزہ پٹی کا دورہ کیا تھا اور ربیع کے گھر کے دروازے پر بھی ایک تصویر بنائی تھی، جس میں ایک اساطیری دیوی اپنا سر ہاتھوں میں دیے کسی انجانی سوچ میں گم نظر آتی ہے۔

Bildergalerie Banksy
بینکسی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایسے مقامات پر پہنچ کر دیواروں، دروازوں اور ایسے دیگر اشیاء پر گرافیٹی کرتا ہے، جن کے بارے میں کوئی عام شخص سوچ بھی نہیں سکتاتصویر: Reuters/Suhaib Salem

چھ بچوں کے والد ربیع نے ٹیلی فون کے ذریعے انٹرویو دیتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا، ’’مجھے علم ہی نہیں تھا کہ اس پینٹنگ کی کیا اہمیت ہے اور اس کا خالق بینکسی کون ہے۔‘‘ اس نے مزید کہا کہ اگر اسے یہ حقیقت معلوم ہوتی تو وہ اس دروازے کو کبھی یوں سستے داموں فروخت نہ کرتا۔

2013ء میں انگلینڈ کے شہر برسٹل میں واقع ایک دوکان کی دیوار پر بنائی گئی بینکسی کی ایک پینٹنگ 1.1 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی تھی۔ بینکسی اپنے تخلیق کردہ فن پاروں کو خود فروخت نہیں کرتا بلکہ اس کے مداح انہیں اکٹھا کر کے نجی محفلوں میں نیلام کرتے ہیں۔

اپنی قسمت کو کوستے ہوئے ربیع نے اے ایف پی کو بتایا کہ جنگ سے اس کا گھر تباہ ہو چکا ہے۔ اسے اپنے گھر والوں کی کفالت کے لیے رقم چاہیے، ’’مجھے وہ دروازہ واپس چاہیے۔ میں سوچ سمجھ کر اب اسے بینکسی کی پینٹنگ کے طور پر اچھے داموں فروخت کروں گا۔‘‘

اس دروازے کو خریدنے والے مقامی گرافیٹی آرٹسٹ بلال خالد نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ وہ اس پینٹنگ کو واپس کرنے یا آگے کسی کو فروخت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، ’’میں نے اس دروازے کو اس لیے خریدا تا کہ میں اس پینٹنگ کو محفوظ رکھ سکوں۔‘‘ بلال کے بقول وہ ایک طویل عرصے سے بینکسی کا مداح ہے اور اس کی خواہش تھی کہ وہ بھی اس مشہور زمانہ گرافیٹی آرٹسٹ کا کوئی نمونہ خرید سکے۔

خالد کا کہنا ہے کہ انہوں نے ربیع کو مطلع کیا تھا کہ اس کے دروازے پر بنی پینٹنگ کا خالق بینکسی ہے لیکن اسے اس حوالے سے کوئی آگہی نہیں تھی۔ انہوں نے مزید کہا، ’’میں اس پینٹنگ کو فروخت نہیں کروں گا لیکن بین الاقوامی گیلریوں میں اس کی نمائش کرانا چاہوں گا کیونکہ دنیا کو غزہ پٹی کے عوام کی مصیبتوں اور مشکلات کا اندازہ ہو سکے۔‘‘