1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’داعش‘ کا ایجنڈا عراق کی تقسیم؟

Anne Allmeling / امجد علی28 جولائی 2014

شام میں باغیوں کے اعتدال پسند دھڑوں کے خلاف برسرِپیکار انتہا پسند گروپ ’دولت اسلامی عراق و شام‘ کے جنگجوؤں نے گزشتہ چند روز کے دوران پہلی مرتبہ شامی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے شمالی شام میں صحیح معنوں میں ’قتلِ عام‘ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Cjou
جون 2014ء میں انتہا پسند گروپ ’دولت اسلامی عراق و شام‘ کے جنگجوؤں کی شام میں ہونے والی ایک ملٹری پریڈ کا منظر
جون 2014ء میں انتہا پسند گروپ ’دولت اسلامی عراق و شام‘ کے جنگجوؤں کی شام میں ہونے والی ایک ملٹری پریڈ کا منظرتصویر: Reuters

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اس کارروائی میں کم از کم پچاسی شامی فوجی مارے گئے جبکہ تقریباً دو سو فوجیوں کے بارے میں یہ پتہ ہی نہیں چل رہا کہ اُن پر کیا بیتی۔ بتایا گیا ہے کہ اس دوران اٹھائیس جنگجو بھی مارے گئے۔

اپنے نظریات کی بنیاد پر ایک ریاست کی تشکیل

اردن کے دارالحکومت عمان میں جرمن ادارے فریڈرش ناؤمان فاؤنڈیشن کے پراجیکٹ کوآرڈینیٹر فالکو والڈے کہتے ہیں کہ ’اس گروپ کا مقصد سرِدست شام اور عراق میں سرحد کے آر پار ایک بڑے علاقے کو اپنی دسترس میں لانا ہے تاہم یہ محض ایک عبوری مرحلہ ہے‘۔ والڈے کے مطابق ISIS (اسلامک اسٹیٹ ان سیریا اینڈ عراق) کے جنگجو اس خطّے میں اپنا دائرہء اثر اردن، لبنان، اسرائیل، فلسطین حتیٰ کہ قبرص اور جنوبی ترکی تک پھیلا دینا چاہتے ہیں: ’’اس وسیع خطّے میں یہ گروپ اپنے سیاسی اور سماجی تصورات سے ہم آہنگ ایک ریاست تشکیل دینا چاہتا ہے۔‘‘

ابوبکر البغدادی، جنہوں نے جون کے اواخر میں موصل میں خلافت کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے خود کو تمام مسلمانوں کا خلیفہ قرار دے دیا تھا
ابوبکر البغدادی، جنہوں نے جون کے اواخر میں موصل میں خلافت کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے خود کو تمام مسلمانوں کا خلیفہ قرار دے دیا تھاتصویر: picture alliance/AP Photo

گزشتہ چند مہینوں کے اندر اندر اس گروپ نے شام اور عراق کے وسیع تر حصوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور وہاں اپنی ’خلافت‘ قائم کر دی ہے۔ اِس گروپ کے زیر انتظام علاقوں میں من مانے طریقے سے پھانسیاں معمول کا حصہ بنی ہوئی ہیں۔ عراقی شہر موصل میں خواتین کو اب محض مکمل نقاب کے ساتھ ہی باہر نکلنے کی اجازت ہے ورنہ اُنہیں سخت سزاؤں کی دھمکی دی گئی ہے۔

اس گروپ کے قائد ابوبکر البغدادی نے جون کے اواخر میں موصل میں خلافت کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے خود کو تمام مسلمانوں کا خلیفہ قرار دے دیا تھا۔ وہ اور اُن کے بہت سے انتہا پسند حامی عراق، اردن، شام اور لبنان کے درمیان موجود سرحدوں کو نہیں مانتے اور ایک وسیع و عریض اسلامی سلطنت کے قدیم تصور کو عملی شکل دینے کے خواہاں ہیں۔ ان عرب ممالک کے درمیان یہ سرحدیں پہلی عالمی جنگ کے دوران مغربی طاقتوں نے اپنی مرضی کے مطابق کھینچی تھیں۔ ’داعش‘ کے انتہا پسند بیس ویں صدی کے آغاز پر سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کو آج کل کے مسلمانوں کی کمزوری کی اصل وجہ خیال کرتے ہیں۔ ایک ایسی ہی نئی سلطنت کا قیام بہت سے مسلمان انتہا پسندوں کی نظر میں ایک بہتر مستقبل کا ضامن ثابت ہو سکتا ہے۔

کمزور حکومتیں

دریں اثناء شامی فوج سنّی باغیوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اُس نے ایک ہفتے کی لڑائی کے بعد گیس کے اُس پیداواری مرکز پر پھر سے قبضہ کر لیا ہے، جسے انتہا پسندوں نے وسط جولائی میں چھین لیا تھا۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق تب ہونے والی لڑائی میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے تقریباً تین سو حامی ہلاک کر دیے گئے تھے۔ تاہم باغیوں کے مختلف دھڑوں کی اب تک کی تمام تر کوششوں کے باوجود خانہ جنگی شروع ہونے کے تین سال بعد بھی بشار الاسد کا اقتدار قائم و دائم ہے۔

Journal-Karte 30.06.2014 ISIS Irak Syrien

ہمسایہ ملک عراق کی حکومت بھی ایک سنگین بحران کی لپیٹ میں ہے۔ وہاں شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی نے دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ بدعنوانی اور اقربا پروری کی وجہ سے بھی سنّی اقلیت کو اپنے خلاف کر لیا ہے۔ جرمن ریڈیو ڈوئچ لانڈ فُنک سے باتیں کرتے ہوئے ’فاؤنڈیشن فار سائنس اینڈ پالیٹکس‘ کے ڈائریکٹر فولکر پیرتھیس کہتے ہیں: ’’وزیر اعظم کی مختلف مسالک کو سامنے رکھی کر مرتب کی گئی پالیسیوں کی وجہ سے سیکولر سوچ کے حامل بہت سے عراقی خود کو تنہا سمجھنے لگے ہیں۔ اسی طرح بہت سے سنّی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔‘‘

متضاد مفادات

یہ ایسے حالات ہیں، جن میں ’داعش‘ کے پھلنے پھولنے کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ مزید یہ کہ عراق کے شمالی حصے میں کرد اپنی ایک الگ ریاست کے قیام کے خواہاں ہیں۔ یہ کرد نہ تو مزید عراق میں شامل رہنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی بڑی اسلامی سلطنت کا حصہ بننا چاہتے ہیں بلکہ وہ اپنی سیاسی، ثقافتی اور معاشی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ایک طرف کردوں کی عراق سے الگ ہونے کی خواہش نے اور دوسری جانب اُسی خطّے میں ’خلافت‘ کے قیام کے لیے ’داعش‘ کی بے رحمانہ جنگ نے عرب دنیا کے ملکوں کے درمیان واقع سرحدوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ عراق، شام اور لبنان کی پہلے سے ہی کمزور ہو چکی حکومتوں کے لیے اپنی اپنی ریاستوں کی وحدت اور سالمیت کو برقرار رکھنا کافی مشکل ثابت ہو گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید