داخلی مہاجرت پر مجبور پاکستانی خواتین کی سماجی بحالی کا غیر ملکی منصوبہ
28 نومبر 2014حکومتی سطح پر ان ہزار ہا متاثرہ خواتین کی بحالی اور انہیں سماجی ترقی میں آگے لے جانے کے لیے ابھی تک کوئی ٹھوس منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی۔ ملکی پارلیمانی اداروں میں خواتین کی اچھی خاصی نمائندگی کے باوجود داخلی مہاجرت پر مجبور ایسی خواتین کی سماجی بحالی کے لیے تاحال نہ تو کوئی خصوصی قانون سازی کی گئی ہے اور نہ ہی ان کی مدد کے لیے پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔
اس صورت حال میں اب یورپی ملک ڈنمارک کی حکومت نے اقوام متحدہ کی خواتین کے لیے تنظیم 'یو این ویمن‘ کے تعاون سے خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں خونریز بدامنی اور قدرتی آفات سے متاثرہ خواتین کے لیے 'سماجی تعمیر نو میں خواتین کا کردار‘ کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔ اس منصوبے کے لیے مالی معاونت ڈنمارک کی حکومت کی طرف سے کی جا رہی ہے۔
اس منصوبے کے افتتاح کے بعد اسلام آباد میں متعین ڈنمارک کے سفیر جیسپر مولر سورنس نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوے کہا، ”یہ پروگرام صرف ان خواتین کے لیے ہے، جو قدرتی آفات یا جنگ سے متاثر ہوئی ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہو گی کہ ڈنمارک کی تجارت پیشہ خواتین کا ایک وفد بھی پاکستان لائیں اور دونوں ممالک کی خواتین کے مابین تجارت کے حوالے سے تعلقات کو فروغ دیا جا سکے۔ ’’اس سے خواتین کے لیے امکانات اور صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔‘‘
پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں خواتین قدرتی آفات یا مسلح تصادم کی صورت میں اپنے اپنے خاندانوں کی حفاظت کے لیے سب سے آگے ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خواتین سب سے زیادہ متاثر بھی ہوتی ہیں۔ لیکن ان خواتین کو نہ تو گھر کے اندر فیصلہ سازی میں کوئی حصہ دیا جاتا ہے اور نہ ہی قومی سطح پر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اگرچہ حقوق نسواں کے لیے سرگرم متعدد تنظیمیں اس شعبے میں کام کر رہی ہیں تاہم عملی طور خواتین کی تعلیم و تربیت اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اقوام متحدہ کے لیے پاکستان میں کام کرنے والی خاتون اہلکار لبنیٰ تاجک نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’بہت سے ایسے متاثرہ لوگ ہمارے سامنے ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں ان کے حقوق نہیں دلا سکتے۔‘‘ لبنیٰ تاجک کا مزید کہنا تھا کہ منتخب ایوانوں میں بل پیش ہوتے ہیں، قانون بن جاتے ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ان قوانین پر عمل درآمد کے ذمہ دار حلقوں کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ متاثرہ خواتین کو ان کے حقوق دلوانے کے لیے کس قسم کے اقدامات کس طرح کریں۔‘‘
قدرتی آفات اور جنگ کی وجہ سے خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں بڑی تعداد میں خواتین اپنے گھروں میں کسی مرد کفیل سے محروم ہیں جبکہ ان میں سے بہت سی معذور بھی ہیں۔ اس منصوبے کی افتتاحی تقریب میں کئی ایسی خواتین بھی نظرآئیں جو اپنے لیے باعزت طریقے سے روزگار کی تلاش میں ہوتی ہیں لیکن جن کی مشکلات میں حکومتی اداروں کی طرف سے عدم سرپرستی کے باعث روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اگر مجموعی آبادی میں نصف سے زائد تعداد والی خواتین کو امن، سکیورٹی اور انسانی ہمدردی سے متعلق مرکزی منصوبہ بندی کے دوران فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے، تو ان کی صلاحیتوں سے سماجی تعمیر و ترقی اور بحالی کے عمل میں واضح تیزی لائی جا سکتی ہے۔