1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا: ’تھیلےسیمیا کے مریضوں کی تعداد میں تشویشناک اضافہ‘

دانش بابر، پشاور31 دسمبر 2014

پاکستان میں ہر سال آٹھ سے بارہ ہزار تک بچے تھیلےسیمیا کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں، جن میں زیادہ تعداد خیبر پختونخوا اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے بچوں کی ہے۔ اس امر کی بڑی وجہ رشتہ داروں کے مابین ہونے والی شادیاں ہیں۔

https://p.dw.com/p/1ECEk
تصویر: DW/D. Baber

تھیلےسیمیا خون کی ایک موروثی بیماری ہے اور یہ والدین میں جینیاتی خامیوں کے باعث اولاد میں منتقل ہوتی ہے۔ اس مرض میں مریض کے جسم میں ہوموگلوبن کی پیداوار بند ہو جاتی ہے اور مریض کو مستقل طور پر انتقال خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ پاکستان میں ہر سال جو آٹھ سے بارہ ہزار تک بچے تھیلےسیمیا کا شکار ہوجاتے ہیں، ان کی بڑی تعداد کا تعلق شمال مغربی پاکستان سے ہوتا ہے اور اس مرض کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ خاندانوں کے اندر کی جانے والی شادیاں بنتی ہیں۔

پشاور میں مقیم تھیلےسیمیا انٹرنیشنل فیڈریشن (TIF) کے رکن اعجاز علی خان کے مطابق پاکستان میں تھیلےسیمیا کے مرض میں اضافہ بہت تشویشناک ہے، جس کے روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت خیبر پختونخوا میں قائم مختلف اداروں میں پندرہ ہزار سے لے کر بیس ہزار تک تھیلےسیمیا میں مبتلا بچے باقاعدہ طور پر رجسٹر ہیں، جن کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اعجاز علی خان نے ان بچوں کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بچے یا مریض، ہماری طرح صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو وقت پر خون اور اجزائے خون کے ساتھ ساتھ ادویات بھی ملتی رہیں۔‘‘

Thalassämie Patienten in Peshawar, Pakistan
پاکستان میں ہزاروں بچے اس بیماری کا شکار ہیںتصویر: DW/D. Baber

اعجاز علی خان کے مطابق گو کہ اس مرض میں وقت کے ساتھ ساتھ کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، تاہم دوسری طرف کامیابی کی بات یہ ہے کہ ایک دہائی پہلے اس عارضے میں مبتلا مریضوں کے اوسط عمر بارہ سے پندرہ سال تک تھی جبکہ اب 40 سے45 سال تک پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھر بھی صوبہ خیبر پختونخوا اور شمال مغربی قبائلی علاقوں سے آئے روز اس بیماری کے نئے کیسز کا سامنے آنا بڑی تشویش کی بات ہے۔

تھیلےسیمیا کی روک تھام کے صوبائی منصوبے (Prevention of Thalassemia Project KP)کے رکن، پروفیسر ڈاکٹرمحمد طاہر کا ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے صوبے کو تھیلےسیمیا سے پاک کرنے کے لیے ایک بہت بڑا منصوبہ شروع کیا ہے جس کی بدولت صوبے بھر میں آگہی مہم کے ذریعے لوگوں میں اس بیماری کے تدارک سے متعلق شعور پیدا کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا، ’’اصل میں تھیلےسیمیا کا بہتر علاج احتیاط ہی ہے، کیونکہ جتنا ہم احتیاط سے کام لیں گے ، اتنے ہی نتائج بھی اچھے ہوں گے اور یہ طریقہ کم خرچ بھی ہے۔‘‘ ڈاکٹر طاہر کا مزید کہنا ہے کہ خاندانوں کے اندر شادیوں سے پہلے لازمی طور پر خون کے ٹیسٹ کرانے چاہیئں۔ یہی وہ ابتدائی مرحلہ ہے، جس کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں اور ان کو ہر وقت انتقالِ خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس مرض سے مکمل چھٹکارے کے لیے علاج ابھی تک موجود نہیں تاہم حکومت اس مرض کی روک تھام کے لیے کافی سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہے۔

اعجاز علی خان کے بقول، ’’تھیلےسیمیا سے حفاظت کا بل پاس ہو چکا ہے۔ لیکن اب یہ صوبہ خیبر پختونخوا کے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبے میں اس بل کے نفاذ کو یقینی بنائے اور عوامی آگہی کے لیے ایک بھر پور مہم شروع کرے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ حکومت کی طرف سے ایک بہت بڑا فلاحی قدم ہو گا۔‘‘

اعجاز علی خان کہتے ہیں کہ صوبہ سندھ اور پنجاب میں اس سلسلے میں سنجیدگی سے کام کیا جا رہا ہے اور کافی حد تک اچھے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہر سال تھیلےسیمیا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ان دونوں صوبوں میں قریب ایک سی روایات اور مشترکہ رسوم و رواج کا نتیجہ ہے۔ ان دونوں صوبوں میں بیشتر لڑکے لڑکیوں کی شادیاں ان کے خاندانوں کے اندر ہی کی جاتی ہیں۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ اس بیماری میں مبتلا زیادہ ترافراد کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے جو مجبوری میں صرف مفت علاج پر ہی انحصار کرتے ہیں۔

اعجاز علی خان کہتے ہیں کہ پہلے تو اس قسم کی شادیوں میں خاص خیال رکھا جانا چاہیے اور پھر حاملہ ہونے کی صورت میں حمل کے پہلے 120 دنوں کے اندر اندر متعلقہ خواتین کے تفصیلی میڈیکل ٹیسٹ کرائے جانے چاہیئں تا کہ یہ پتہ چل سکے کہ ماں کے پیٹ میں موجود بچہ صحت مند ہے یا نہیں۔ اگر دوران حمل بچے میں تھیلےسیمیا کی نشاندہی ہو جائے تو اس صورت میں اسقاط حمل کرا دینا چاہیے۔ اس بارے میں علماء کے فتوے بھی موجود ہیں۔ ’’چونکہ دوران حمل بچہ 120 دنوں سے پہلے سانس نہیں لیتا، اس لیے تب تک اسقاط حمل جائز ہے۔‘‘

ڈاکٹر طاہر کہتے ہیں کہ اگر پہلے سے ان باتوں کا خیال رکھا جائے تو نہ صرف ہزاروں بچوں کو اس مرض سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ خود والدین بھی انتہائی تکلیف دہ حالات سے بچ سکتے ہیں۔

دانش بابر، پشاور