1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خون میں دوا کی مقدار جانچنے کے لیے رنگ بدلنے والا مالیکیول

کشور مصطفیٰ9 جون 2014

محققین کا کہنا ہے کہ خون میں ادویات کی مقدار کا اندازہ لگانے کےلیے ایجاد کردہ یہ مالیکیول یا سالمہ اس عمل کو نہایت سہل بنا دے گا۔ خون کے محض ایک قطرے کے ساتھ اس مالیکیول کا رابطہ ہوتے ہی اس کا رنگ سرخ یا نیلا ہو جاتا ہے

https://p.dw.com/p/1CEsp
تصویر: picture-alliance/dpa

سائنسدانوں نے ایک ایسا مالیکیول ایجاد کیا ہے جس کی مدد سے خون میں دوا کی مقدار کا اندازہ لگانے میں غیر معمولی مدد ملے گی۔ اس طرح ممکنہ طور پر ایک ایسا گھریلو ٹیسٹ تیار کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے مریضوں کو حادثاتی طور پر ادویات کی زیادہ مقدار یا overdose سے بچایا جا سکے گا۔

اس بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ طبی جریدے ’نیچر کیمیکل بائیالوجی‘ میں شائع ہوئی ہے، جس کے مصنفین کا تعلق سوئٹزرلینڈ اور امریکا سے ہے۔ ان محققین کا کہنا ہے کہ خون میں ادویات کی مقدار کا اندازہ لگانے کے لیے ایجاد کردہ یہ مالیکیول یا سالمہ اس عمل کو نہایت سہل بنا دے گا۔ خون کے محض ایک قطرے کے ساتھ اس مالیکیول کا رابطہ ہوتے ہی اس کا رنگ سرخ یا نیلا ہو جاتا ہے، جسے ایک معمولی ڈیجیٹل کیمرے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان کے فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محقق رُوڈولف گرِسّ نے ایک ویڈیو کے ذریعے اس نئی ایجاد کی تفصیلات بیان کیں، جسے قابل استعمال بنا کر اب مارکیٹ میں لانے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ گرِسّ کہتے ہیں، ’’اس ٹیسٹ کے لیے کسی لیبارٹری یا بڑے آلے کی کوئی ضرورت نہیں، یہ نہایت سادہ عمل ہے جسے مریض خود گھر پر کر سکتے ہیں۔‘‘

Höchstes US-Gericht entscheidet über Obamas Gesundheitsreform
بلڈ ٹیسٹ سے خون کی بہت سی بیماریوں کا پتا چل جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ان محققین کا کہنا ہے کہ ایسے افراد کو جو کینسر، دل کی بیماریوں، مرگی یا اِمیُونوسُپرَیسنٹ یا مامونیت باختہ عارضے کا شکار ہوں اور کسی جسمانی عضو کے ٹرانسپلانٹ کے بعد جسم میں اُس کے خلاف مدافعت پیدا ہونے کے خطرات سے بچنے کے لیے ادویات کا استعمال کرتے ہوں، انہیں ادویات کے ضمنی اثرات اور بیش مقداری کی صورت میں خون میں زہر پھیلنے تک کے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ دوسری طرف ایسی ادویات مطلوبہ سے کم مقدار میں لینے کی وجہ سے مؤثر بھی نہیں ہوتیں۔

ایسے مریضوں کے جسم میں دوا کی مقدار کو ناپنے کے لیے کیا جانے والا ٹیسٹ خاصا مہنگا اور وقت طلب ہوتا ہے۔ اب تک یہ معائنہ لیبارٹری میں کوئی ماہر ہی کر سکتا تھا۔ خون میں دوا کی مقدار کا اندازہ لگانے کے لیے ایک آسان، سستے اور گھر پر ہی عمل میں لائے جانے والے طریقہ کار کی ایجاد پر ایک عرصے سے کام ہو رہا تھا، خاص طور پر ایسے دور دراز علاقوں کے مریضوں کے لیے جہاں بہت کم طبی سہولیات دستیاب ہوں۔

سوئس ریسرچر رُوڈولف گرِسّ کے بقول، ’’اس نئے مالیکیول کی مدد سے کسی بھی مریض کے خون میں دوا کی مقدار کا بالکل صحیح اندازہ لگایا جا سکے گا اور اس میڈیکل ٹیسٹ کا نتیجہ بھی فوری طور سے سامنے آجاتا ہے۔‘‘

اس سینسر مالیکیول میں چار ترکیبی اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ ایک ریسیپٹر یا وُصول کنندہ پروٹین جو ایک خاص دوائی کے ساتھ مالیکیول کو جوڑ دیتی ہے، ایک ایسا چھوٹا مالیکیول جو ٹارگٹ بنائی جانے والی دوائی سے مماثلت رکھتا ہے، روشنی پیدا کرنے والا ایک اینزائم جسے لُوسی فیریز کہا جاتا ہے اور ایک فلوروفور مالیکیول جو لُوسی فیریز اینزائم سے خارج ہونے والی روشنی کا رنگ تبدیل کر سکتا ہے۔

Flash-Galerie HIV / Aids 2010
ذیابیطس کے مریض گلوکومیٹر کا استعمال کرتے ہیںتصویر: AP

اگر خون میں کوئی بھی دوا موجود نہ ہو تو ریسیپٹر یا وُصول کنندہ اور دوائی جیسا مالیکیول ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔ اس عمل میں لُوسی فیریز اور فلوروفور مالیکیول بھی ایک دوسرے کے بہت قریب آ جاتے ہیں اور اس طرح سُرخ روشنی پیدا ہوتی ہے۔

لیکن اگر مریض کے خون میں دوا موجود ہو تو ریسیپٹر اس اصلی کیمیائی جُز کے ساتھ جڑ جاتا ہے اور دوائی کی طرح کے مصنوعی مالیکیول کو دور دھکیل دیتا ہے۔ اس عمل کے دوران لُوسی فیریز اینزائم اور فلوروفور مالیکیول ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ایسی صورت میں نیلی روشنی دیکھنے میں آتی ہے۔

سائنسدانوں نے اس پروٹو ٹائپ ٹیسٹ کے کامیاب تجربات تین اِمیُونوسُپرَیسنٹ یا مامونیت باختہ مادوں، مرگی کے خلاف ایک دوا اور حرکت قلب کی بیماری کے ساتھ ساتھ کینسر کے خلاف استعمال کی جانے والی ایک دوائی پر بھی کیے۔ سوئس محقق رُوڈولف گرِسّ کہتے ہیں، ’’ہم ابھی ایک ایسے نظام کی تشکیل میں مصروف ہیں، جس کے مکمل ہو جانے کے بعد مریض ایک سوئی کی مدد سے خون کا ایک قطرہ نکال کر ایک اسٹرپ پر لگائے گا اور اسے ایک دستی آلے کے نیچے لے آئے گا۔ اس آلے کے ذریعے ٹیسٹ کا نتیجہ فوراً دیکھا جا سکے گا۔ یہ عمل بالکل ایسے ہی ہے جیسے ذیابیطس کے مریض گلُوکومیٹر کی مدد سے اپنے خون میں شوگر لیول معلوم کر لیتے ہیں۔‘‘ ماہرین کو یقین ہے کہ مستقبل میں یہ نئی ایجاد انتہائی کارآمد ثابت ہو گی۔