1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین کے خلاف تشدد: پاکستان میں قوانین پر عملدرآمد عنقا

عنبرین فاطمہ، کراچی25 نومبر 2014

آج خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ پاکستانی سول سوسائٹی کے مطابق ملک میں خواتین پر تشدد کے خلاف قوانین موجود ہونے کے باوجود خواتین پر تشدد کے واقعات میں خاطر خواہ کمی نہیں ہو پا رہی۔

https://p.dw.com/p/1Dsj9
تصویر: DW

خواتین پر گھریلو اور جسمانی تشدد کے خلاف یہ دن ہر سال 25 نومبر کو منایا جاتا ہے جس میں عورتوں پر تشدد کے خاتمے کی سولہ روزہ سرگرمیوں کا بھی آغاز ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اس حوالے سے شعور اور آگاہی بیدار کرنے کے لیے حکومتی اداروں اور حقوق نسواں کی تنظیموں کے نمائندگان کی جانب سے کئی پروگرامز ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں خواتین کے خلاف تشدد میں کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ اس بات کا اندازہ اس صورتحال سے لگایا جا سکتا ہے کہ خواتین سے متعلق مسائل پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فاونڈیشن کی جانب سے اخبارات اور میڈیا پر آنے والی خبروں پر مبنی جو رپورٹ مرتب کی گئی، اس کے مطابق صرف صوبہ سندھ میں ہی جولائی سے ستمبر کے مہینے میں 421 واقعات میں 534 خواتین اور لڑکیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

صرف صوبہ سندھ میں ہی جولائی سے ستمبر کے مہینے میں 421 واقعات میں 534 خواتین اور لڑکیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا
صرف صوبہ سندھ میں ہی جولائی سے ستمبر کے مہینے میں 421 واقعات میں 534 خواتین اور لڑکیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیاتصویر: DW

عورت فاؤنڈیشن کی ریجنل ڈائریکٹر مہناز رحمٰن کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کا صحیح اندازہ لگانا ممکن نہیں: ’’ہم جو اعداد و شمار جمع کرتے ہیں یہ وہ ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں، یعنی اخباروں یا پرنٹ میڈیا میں چھپتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اصل اعداد و شمار کہیں زیادہ ہوتے ہیں جو چھپا لیے جاتے ہیں اور رپورٹ نہیں ہوتے۔کیونکہ اگر غیرت کے نام پر قتل کا معاملہ ہو تو مار کر گھر میں دفن کر دیتے ہیں اور اس کا لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا۔ اسی طرح اگر زیادتی کا واقعہ ہو تو عام طور پر اس کو بھی چھپا لیا جاتا ہے کہ اگر لوگوں کو پتہ چلا تو لڑکی کی زندگی برباد ہو جائے گی یا اس کی کہیں شادی نہیں ہو گی۔ اس لیے ان کیسز کو چھپا لیا جاتا ہے۔‘‘

مہناز رحمان کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے کے دوران مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے کافی قانون سازی ہوئی ہے: ’’اچھی بات یہ ہے کہ کافی قوانین بن گئے ہیں لیکن جو بات اچھی نہیں وہ یہ ہے کہ ان قوانین پر مکمل طور پر عملدآمد نہیں ہو رہا۔ سندھ قوانین سازی کے لحاظ سے سب سے آگے ہے اور خواتین کے تحفظ کے لیے کافی اچھے قوانین بنائے گئے ہین لیکن جب تک ان پر عملدرآمد نہیں ہو گا ان کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘

عورت فاؤنڈیشن کے اعداد وشمار کے مطابق صرف صوبہ سندھ میں رواں برس جنوری سے جون تک کے چھ ماہ کے دوران خواتین کے خلاف تشدد اور زیادتی کے 664 کیسز سامنے آئے جن میں سے قریب نصف ایسے ہیں جو میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوئے: ’’سندھ میں اس چھ ماہ کے عرصے کے دوران خواتین کے اغواء کے 72 واقعات سامنے آئے، 120 عورتوں کو قتل کیا گیا، زیادتی اور اجتماعی زیادتی کا 47 خواتین نشانہ بنیں۔ غیرت کے نام پر قتل کے 114 واقعات، گھریلو تشدد کے نتیجے میں62 عورتیں زخمی ہوئیں۔‘‘

حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر 2011ء سے 2012ء تک خواتین کے تحفظ کے پانچ بل پاس کئے گئے مگر ان قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے خواتین آج بھی تشدد کا شکار ہیں۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ، کراچی