1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خلائی مخلوق کا بلاوا؟

افسر اعوان5 مئی 2015

آسٹریلیا میں ایک طاقتور ریڈیو ٹیلی اسکوپ کے سائنسدانوں نے ان پُراسرار سگنلز کا کھوج لگا لیا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ کسی دور دراز کے سیارے پر موجود کسی نامعلوم خلائی مخلوق کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FKV3
تصویر: AFP/Getty Images

ان سائنسدانوں کے مطابق یہ سگنلز دراصل آبزرویٹری یا خلائی مشاہدہ گاہ کے کچن میں موجود مائیکرو ویو سے پیدا ہو رہے تھے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق آسٹریلیا کے مشرقی حصے میں موجود پارکیس ریڈیو ٹیلی اسکوپ کے سائنسدان ’ان تیز رفتار ریڈیو سگنلز‘ کا تجزیہ کر رہے تھے جو محض ایک ملی سیکنڈ کے وقفے تک موجود رہتے ہیں اور جو اربوں نوری سال کی دوری سے آتے ہیں۔

تاہم اس دوران سائنسدانوں کو ہماری کہکشاں کے باہر سے آنے والے ان سگنلز کے ساتھ ایسے ریڈیو سگنلز بھی موصول ہو رہے تھے جنہیں پیریٹونز perytons کہا جاتا ہے اور جو ہماری زمین پر ہی پیدا ہوتے ہیں۔

پارکیس ریڈیو آبزرویٹری کے تجرباتی سائنسدان جان سارکیسیئن نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’یہ ایک معمہ تھا، ہم یہ معلوم نہیں کر پا رہے تھے کہ یہ سگنلز کہاں سے آ رہے تھے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’تیز رفتار ریڈیو سگنلز کے جھماکوں کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ وہ ستاروں کے نیوٹرونز کے ٹکرانے کے سبب پیدا ہوتے ہیں اور جس سے پیدا ہونے والی توانائی کی مخصوص خصوصیات ہوتی ہیں۔ یہ دونوں ایک جیسے تھے مگر اس حد تک مختلف تھے کہ بتایا جا سکے کہ یہ دو مختلف ذرائع سے آ رہے ہیں۔‘‘

میلبورن کی سوئنبورن یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی پی ایچ ڈی کی طالبہ ایمیلی پیٹروف نے سگنلز کا کھوج لگانے کے لیے انتہائی جدید آلات کا استعمال کیا جن سے معلوم ہوا کہ پیریٹون سگنلز دراصل آبزرویٹری کی عمارت کے اندر سے ہی آ رہے ہیں۔‘‘

سائنسدانوں کو ہماری کہکشاں کے باہر سے آنے والے سگنلز کے ساتھ ایسے ریڈیو سگنلز بھی موصول ہو رہے تھے جنہیں پیریٹونز کہا جاتا ہے
سائنسدانوں کو ہماری کہکشاں کے باہر سے آنے والے سگنلز کے ساتھ ایسے ریڈیو سگنلز بھی موصول ہو رہے تھے جنہیں پیریٹونز کہا جاتا ہےتصویر: AFP/Getty Images

سارکیسیئن کے مطابق، ’’یہ بہت پریشان کُن تھا کیونکہ ہم کمپیوٹر جیسے تمام الیکٹرانک آلات سے ایسے سگنلز کے اخراج کو روکنے کے لیے خصوصی کیسنگ استعمال کرتے ہیں۔‘‘ تاہم پیٹروف نے ان سنگلز کو ڈھونڈنے کے لیے اپنی تلاش کا رُخ اس طرف موڑ دیا جس پر کسی کی توجہ نہیں گئی تھی یعنی اسٹاف کا چائے کا کمرہ اور خاص طور پر وہاں موجود مائیکروویو جو اسٹاف اپنے نوڈلز کو گرم کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

انہوں نے کھوج لگایا کہ مائیکرو ویو کا سائیکل مکمل ہونے سے پہلے ہی جب کوئی اس کا دروازہ کھول دیتا تو یہ مائیکرو ویو ایک بہت ہی تیز ریڈیو سگنل پیدا کرتا ہے تاکہ یہ خود کو بند کر سکے اور یہ سگنل ان سگنلز سے بہت ملتا جلتا تھا جو دور دراز کی کہکشاؤں سے آتے ہیں۔ یہ معلوم ہونے کے بعد آبزرویٹری میں مائیکرو ویو کے استعمال کو ترک کر دیا گیا ہے۔