1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خلائی سائنس میں بھارت کی تاریخی چھلانگ

جاوید اختر، نئی دہلی24 ستمبر 2014

بھارت نے سائنسی تکنیک اور خلائی سائنس کے شعبے میں آج ایک نئی تاریخ رقم کردی۔ وہ مریخ کے مدار میں اپنا سیٹلائٹ بھیجنے والا ایشیا کا پہلا اور دنیا کا چوتھا ملک بن گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DJgx
تصویر: AFP/Getty Images/Manjunath Kiran

منگل یان کو آج صبح سات بج کر ستّرہ منٹ پر سرخ سیارے کے مدار میں داخل کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ سائنس دان کئی طرح کی کمانڈز کو عمل میں لاکر سیٹلائٹ کے وسطی انٹینا کو حرکت میں لائے۔ وزیراعظم نریندر مودی اس تاریخی موقع پر بنگلور میں بھارتی خلائی و تحقیقی تنظیم (اسرو )کے ٹیلی میٹری ٹریکنگ اور کمانڈ نیٹ ورک سینٹر میں موجود تھے۔ منگل یان کی کامیابی پر انہوں نے اسے بھارتی خلائی پروگرام کا سنہرا دن قرار دیتے ہوئے سائنس دانوں کو مبارک باد دی اور کہا کہ بھارت نے اپنی پہلی ہی کوشش میں مریخ کے مدار میں سیٹیلائٹ بھیج کر تاریخ رقم کردی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ ہمارے خلائی پروگرام کی یہ کامیابی اس بات کی عکاس ہے کہ بھارت کتنی صلاحیتوں کا حامل ہے۔ سائنس ’’منگل(مریخ) کو آج موم (ماں) مل گئی ہے۔ مجھے پورا بھروسہ تھا کہ یہ مشن کامیاب رہے گا کیونکہ ماں کبھی مایوس نہیں کرتی‘‘۔ انہوں نےمزید کہا، ’’ ہم انسانی تصورکی سرحدوں سے باہر نکل گئے ہیں۔ ہم نے ایک نیا راستہ اختیار کیا، اس میں خطرہ لاحق تھا،سائنس دان انجانی تاریک دنیا میں جارہے تھے مگر وہ کامیاب ہوکر باہر آئے۔‘‘

وزیر اعظم نے کہا کہ اسرو نے پہلے چاند کے لئے چندریان مشن کو کامیاب بنایا اور اب مارس آربٹ مشن (ایم او ایم) کے ساتھ ایک اور بڑی چھلانگ لگائی ہے، ’’اب اس سے آگے اور بڑی کامیابیوں کے لیے حوصلہ پیدا ہوگیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جب بھارت کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت لیتا ہے تو پورا ملک خوشی سے ناچنے لگتا ہے مگر خلائی سائنس دانوں کی یہ کامیابی اس سے ایک ہزار گنا بڑی ہے۔ انہوں نے ملک بھر میں اسکول کے بچوں سے کہا کہ وہ اس کامیابی کی خوشی منائیں۔

خیال رہے کہ مریخ پر جانے میں اب تک امریکا، روس اور یورپی خلائی ایجنسی ہی کامیاب رہی ہے۔ اب بھارت اس صف میں شامل ہونے والا چوتھا ملک بن گیا ہے۔ مریخ کے اس مشن پر صرف 450 کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے جواب تک کے تمام مشنوں میں سب سے کم ہے۔ دنیا بھر سے اب تک 51 مشن مریخ کی طرف بھیجے گئے ہیں جن میں سے صرف 21 ہی کامیاب رہے ہیں۔

اس تاریخی کامیابی کے حوالے سے موقر جریدہ سائنس کے ایڈیٹر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھارتی سائنس کے لئے ایک Moral Booster ہے۔ اس کی سب سے منفرد بات یہ ہے کہ سارا کام بھارتی سائنس دانوں نے خود کیا ہے اور اتنی بڑی ٹیکنالوجی صرف اپنی کاوشوں سے حاصل کی گئی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کیا بھارت کو پینے کا صاف پانی اور ٹوائلٹ جیسی بنیادی ضرورتوں کو پہلے نہیں پورا کرنا چاہئے، ڈاکٹر اسلم پرویز نے کہا، ’’ ہمیں ہمہ جہت ترقی کرنی چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پینے کا صاف پانی اور بیت الخلاء کی ضرورت نہیں ہے لیکن ساتھ ہی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی بھی ضروری ہے۔ ہم ایسا نہیں کرسکتے کہ جب تک ہر ایک کو پانی اور بیت الخلا ء نہ دے دیں اس وقت سائنس کی ترقی کو روکے رکھیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ منگل یان جیسے تجربات بڑے دور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں اور معلومات کا حصول بہت بڑا حصول ہے۔ انہوں نے کہا کہ منگل یان سے جو ٹیکنالوجی ڈیولپ ہوئی ہے اس سے آگے بہت سارے شعبوں میں کافی فائدے ہوں گے اور خلائی تحقیق میں بھارت کا اگلا قدم چندریان یعنی چاند پر قدم رکھنا ہے۔

اس سیٹیلائٹ کے ذریعے پانچ سائنسی تجرباتی آلات روانہ کئے گئے ہیں اور یہ اب تک 214 کروڑ کلو میٹر کا سفر طےکر چکا ہے۔ خلائی جہاز پانچ نومبر 2013ء کو روانہ کیا گیا تھا۔ اس کو مدار میں داخل کرنے کا کام بہت دشوار مرحلہ ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں چوبیس منٹ تک ایندھن جلایا گیا اور سیٹیلائٹ کو 423 کلو میٹر کی دائرے میں کامیابی سے پہنچا دیا گیا۔ اس دوران سٹیلائیٹ کی رفتار کو 221 کلو میٹر فی سیکنڈ سے کم کر کے چوالیس کلو میٹر فی سیکنڈ پر لایا گیا۔ سب سے بڑا چیلنج یہی ہوتا ہے کہ اسے مقررہ مقام پر پہنچایا جائے اور اس کی رفتار کم کی جائے۔

Bildergalerie Indien Mars Orbiter Mangalyaan
اس تاریخی موقع پر بنگلور میں بھارتی خلائی و تحقیقی تنظیم (اسرو )کے ٹیلی میٹری ٹریکنگ اور کمانڈ نیٹ ورک سینٹر میں موجود تھےتصویر: Reuters/India's Press Information Bureau

مطلوبہ رفتار حاصل کرنے کے بعد انجن کو بند کردیا گیا۔ اس کے انٹینا کا رخ زمین کی طرف گھمایا گیا تاکہ اسرو کے ساتھ مواصلاتی رابطہ قائم ہو سکے۔ منگل یان نے پہلے ہی دن سے مریخ کی تصاویر بھیجنا شروع کرد ی ہیں۔ اس سیٹلائٹ پر بنگلور کے علاوہ دنیا کے تین مختلف مقامات امریکا، اسپین اور آسٹریلیا سے نظر رکھی جائے گی۔

اب تک مریخ تک پہنچنے کا مرحلہ ٹیکنالوجی سے تعلق رکھتا تھا اب جو مشاہدے کئے جائیں گے، ان کا تعلق سائنسی تجربات سے ہے۔ اس مشن کے مقاصد میں سرخ سیارے کی سطح، آب و ہوا اور ماحول کے مشاہدے کے ساتھ ساتھ وہاں بیکڑیا یا کسی جاندار کا پتہ لگانا، میتھین گیس کی مقدار کی جانچ اور معدنیات کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شامل ہیں۔