خرد برد کا الزام ، دو جاپانی خاتون وزراء مستعفی
20 اکتوبر 2014جاپان کی وزیر صنعت و تجارت یوکُو اُوبُوچِی اور وزیر انصاف میدوری ماتشو شیما نے سرکاری رقوم میں خرد برد کے الزامات کے ایک روز بعد اپنے عہدوں سے استعفی دے دیا ہے۔ چالیس سالہ وزیر یوکُو اُوبُوچِی کا تعلق سیاسی خاندان سے ہے اور وہ سابق وزیراعظم کائزو اُوبُوچِی کی صاحبزادی ہیں۔ عام طور پر یہ وزارت صنعت و تجارت تجربہ کار سیاستدانوں کی دی جاتی ہے تاہم یوکُو کو اس منصب پر فائز کیے جانے والے فیصلے کو ملکی سیاسی حلقوں میں سراہا گیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں گزشتہ ہفتے اپنے انتخابی حلقے میں تحائف تقسیم کرنے اور اپنے لیے کاسمیٹک اور اسی طرح کی دیگر اشیاء خریدنے کے لیے سیاسی رقوم استعمال کی ہیں۔
دوسری جانب وزیرانصاف میدوری ماتشو شیما کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے عوام کو سستے پنکھے مہیا کیے ہیں اور پنکھوں پر اُن کا نام تصاویر کے ساتھ چسپاں تھا۔ ملکی اپوزیشن کا موقف ہے کہ ان دونوں وزراء نے یہ رقم اپنے حلقوں میں ووٹ خریدنے کے لیے استعمال کی ہے۔
ان دونوں کی علیحدگی کے بعد جاپانی کابینہ میں خواتین کی تعداد تین رہ گئی ہے۔ ابھی ستمبر میں ہی وزیراعظم شینزوآبے نے خواتین کو مختلف شعبوں میں آگے لانے کے لیے ایک مہم شروع کی تھی، جس کی ہر سطح پر پذیرائی کی گئی تھی۔ ٹوکیو حکام نے اعلان کیا تھا کہ 2020ء تک ملک کے تیس فیصد اہم عہدوں پر خواتین کو فائز کیا جائے گا۔
اس تناظر میں ابھی حال ہی میں وزیراعظم نے کابینہ میں بھی رد و بدل کرتے ہوئے اپنی ٹیم میں مزید تین خواتین وزراء کو شامل کیا تھا۔ اس طرح 18 رکنی کابینہ میں خواتین وزراء کی تعداد پانچ ہو گئی تھی۔ تازہ پیش رفت پر آبے کا کہنا تھا ’’میں نے بطور وزیراعظم انہیں ان عہدوں پر فائز کیا تھا۔ میں موجودہ صورتحال کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے عوام سے معافی کی طلبگار ہوں‘‘۔
ایک ہی وقت میں دو وزارء کے استعفوں کو شینزو آبے کے لیے وزیراعظم بننے کے بعد پہلا بڑا اور نمایاں مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ دسمبر 2012ء میں سربراہ حکومت منتخب ہوئے تھے۔ ان کی وزیراعظم بننے کے ساتھ ہی جاپان میں کئی برسوں تک جاری رہنے والے سیاسی بحران کا خاتمہ بھی ہوا تھا۔
ٹوکیو کی نیہوں یونیورسٹی کے پروفیسر ٹوماکائی ایوائی نے کہا کہ یہ آبے کی پہلی بڑی ٹھوکر ہے۔ ’’ دہرے استعفوں کے بعد آبے پر دباؤ بڑے گا اور ان کی مقبولیت میں بھی کمی آ سکتی ہے۔‘‘