1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حوثی باغی ’ایرانی کٹھ پتلیاں‘ ہیں، یمنی صدر

عاطف بلوچ28 مارچ 2015

یمنی صدر نے شیعہ حوثی باغیوں کو ’’ایران کی کٹھ پتلیاں‘‘ قرار دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ ان کے خلاف عسکری کارروائی جاری رکھی جائے۔ سعودی بادشاہ کے بقول اہداف کے حصول تک یمن میں فوجی کارروائی جاری رہے گی۔

https://p.dw.com/p/1EyvZ
مصری صدر السیسی (دائیں) اور یمنی صدر ہادی منصورتصویر: Reuters/Egyptian Presidency

مصری تفریحی مقام شرم الشیخ میں عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ کے سالانہ اجلاس میں یمن کی داخلی صورت حال کو توجہ حاصل رہی ہے۔ ہفتے کے دن منعقدہ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یمنی صدر عبدالرب ہادی منصور نے اپنے ملک میں جاری اس بحران کے لیے ایرانی حکومت کو براہ راست ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی شیعہ حکومت یمن کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے۔ انہوں نے عرب ممالک پر زور دیا کہ جب تک یہ باغی ہتھیار نہیں ڈالتے، ان کے خلاف فوجی کارروائی جاری رہنا چاہیے۔

اگرچہ حوثی باغی اور تہران حکومت عرب ممالک کے ایسے الزامات مسترد کر رہے ہیں لیکن عرب لیگ کے اجلاس سے قبل سعودی عرب، کویت اور مصر کے حکام نے بھی کہا کہ ایران کی حکومت یمن میں فعال ان شیعہ باغیوں کی مدد کر رہی ہے۔ عرب رہنماؤں کی طرف سے ایسے دعوےٰ بھی سامنے آئے ہیں کہ یمن میں پانچ ہزار ایسے جنگ جو حوثی باغیوں کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں، جن کا تعلق ایران، لبنانی تنظیم حزب اللہ اور عراق سے ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ ماہر شیعہ جنگ جو حوثیوں کی تربیت اور مشاورت کا کام کرنے کے علاوہ محازوں پر بطور کمانڈر بھی فعال ہیں۔

عرب لیگ کی سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا کہ عرب ممالک کو ایک مشترکہ فورس بنانے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس خطے کو ’’غیر معمولی خطرات‘‘ کا سامنا ہے۔ قاہرہ حکومت اس فورس کے لیے لڑاکا طیاروں، جنگی بحری جہازوں اور فوجی دستوں کو دستیاب بنانے کا عہد کر چکی ہے۔ السیسی نے بھی یمن میں سیکورٹی کی موجودہ مخدوش صورت حال کے لیے ایران کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب کی سربراہی میں عرب ممالک کا اتحاد جمعرات کے دن سے یمن میں ان باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ تین دنوں میں ان فضائی حملوں کے باعث کم ازکم 54 افراد ہلاک جب کہ 187 زخمی ہو چکے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے عرب سفارت کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ابتدائی طور پر یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف عسکری کارروائی کے لیے ایک ماہ کا نظام الاوقات وضع کیا گیا تھا لیکن زمینی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اب اس کی مدت پانچ یا چھ ماہ تک کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ یمن کے تنازعے کے حل کے لیے ایک پرامن منصوبہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یمن میں اتحادی ممالک کی طرف سے جاری فضائی حملوں کے تیسرے دن اقوام متحدہ نے یمن میں تعینات اپنے سفارتی عملے کو وہاں سے نکال لیا ہے۔ دیگر ممالک کی طرح پاکستانی حکومت نے بھی کہا ہے کہ یمن میں پھنسے ہوئے پاکستانی سفارتی عملے اور شہریوں کو وہاں سے نکالنے کی کوششیں جاری ہیں۔

پاکستان وزارت خارجہ کے مطابق اسلام آباد حکومت یمن سے پاکستانیوں کو بحفاظت نکالنے کی خاطر ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمسایہ ممالک سے بھی رابطے کیے جا رہیں تاکہ یہ ممالک یمن میں موجود پاکستانیوں کو وہاں سے نکالنے میں مدد کریں۔ اطلاعات کے مطابق یمن میں اس وقت کم ازکم تین ہزار پاکستانی موجود ہیں۔

دریں اثناء صنعاء پر قابض حوثی باغی عدن کی طرف اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ روئٹرز نے بتایا ہے کہ فضائی حملوں کے باوجود یہ باغی یمنی صدر کے کنٹرول والے اس شہر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایسے خدشات بہرحال موجود ہیں کہ یہ شہر بھی باغیوں کے ہاتھوں میں جا سکتا ہے۔

Gewalt im Jemen - brennendes Fahrzeug
سعودی عرب کی سربراہی میں عرب ممالک کا اتحاد جمعرات کے دن سے یمن میں ان باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہےتصویر: picture-alliance/dpa