حقانی نیٹ ورک کے لیڈروں کے بارے میں معلومات: 30 ملین امریکی ڈالر کی پیشکش
21 اگست 2014حقانی گروپ کے جن لیڈروں کے سروں کی قیمت کا اعلان کیا گیا ہے، ان میں عزیز حقانی، خلیل الرحمٰن حقانی، یحیٰ حقانی اور عبدالرؤف ذاکر شامل ہیں۔ اِن جنگجوؤں کے بارے میں مصدقہ معلومات فراہم کرنے والے کو فی کس پانچ ملین ڈالر دیے جائیں گے۔ اس طرح اِن چار جنگجووں کے سر کی قیمت بیس ملین ڈالر بنتی ہے۔ اسی گروپ کے سربراہ سراج الدین حقانی کے سر کی قیمت پانچ ملین ڈالر سے بڑھا کر دس ملین ڈالر کر دی گئی ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے مطابق عسکریت پسند گروپ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں رونما ہونے والی خونی واقعات میں کسی نہ کسی طور پر ملوث پایا گیا ہے۔ وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق حقانی نیٹ ورک القاعدہ اور افغان طالبان کا حلیف ہونے کے علاوہ خطے کی دوسرے انتہا پسند اور عسکری گروپوں کے ساتھ بھی قریبی روابط رکھتا ہے۔ اِسی بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستانی قبائلی علاقے میں جڑیں رکھنے والا یہ گروپ انتہائی خطرناک جنگجوؤں کا حامل ہے اور انہی جنگجوؤں نے افغانستان میں امریکا کی قیادت میں نیٹو کی اتحادی اور افغان فوجیوں کو کئی بار نشانہ بنایا ہے۔
حقانی نیٹ ورک کی بنیاد جلاالدین حقانی سے نتھی کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پچھتر سالہ جلال الدین حقانی اب اتنے فعال نہیں اور اسی لیے اِس گروپ کی فعال سربراہی کا فریضہ سراج الدین حقانی انجام دیتے ہیں، جو اُن کا بیٹا ہے۔ طالبان اور القاعدہ کی حمایت میں اب تک جلال الدین حقانی اپنے پانچ میں سے چار بیٹوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ مولوی جلال الدین حقانی سن 1939 میں افغان صوبے پکتیکا کے مقام زدران کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ اَسّی کی دہائی میں روس میں سوویت یونین کی فوج کشی کے دوران وہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے لیے بھی برسوں کام کرتے رہے۔ امریکی مصنف اسٹیوکول کے مطابق انہیں اِس کے عوض بےپناہ سرمایہ بھی دیا گیا تھا۔
اِس عسکریت پسند گروپ کے بارے میں امریکی وزارت دفاع کو یقین ہے کہ جنوری سن دو ہزار آٹھ میں کابل کے سرینا ہوٹل پر حملے میں یہ ملوث تھا۔ جولائی سن دو ہزار آٹھ میں کابل میں بھارتی سفارتخانے پر حملہ بھی اسی گروپ کی کارروائی تھی۔ آئی سیف کے مطابق سن دو ہزار گیارہ میں طالبان کے انٹرکانٹیننٹل ہوٹل حملے میں بھی حقانی گروپ نے مادی مدد فراہم کی تھی۔ سن دوہزار گیارہ ہی میں وردک صوبے کے مقام سید آباد میں حقانی گروپ کے ٹرک بم حملے میں تقریباً ڈیڑھ درجن افغانیوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ ان میں پانچ افغان فوجی اور تین پولیس اہلکار شامل تھے۔ اسی حملے میں سات امریکی فوجی زخمی بھی ہوئے تھے۔ تین برس قبل کابل میں امریکی سفارت خانے اور نیٹو کے فوجی مرکز پر انیس گھنٹے تک جاری رہنے والی جھڑپ میں بھی حقانی گروپ کے عسکریت پسند شامل تھے۔