حسن ابدال میں سکھوں کا تہوار
17 اپریل 2015پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے قریب پچپن کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر حسن ابدال میں سکھ مذہب کے بانی گرو نانک کے پنجے کی مہر ایک پتھر پر ثبت ہے۔ یہ مقام سکھ مت کے پیرو کاروں کے لیے مقدس ہے اور وہ ہر سال اس کی زیارت کے لیے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ سکھ یہاں آکر مقدس چشمے کے پانی سے اشنان کرتے ہیں اور اپنے روحانی پیشوا کو خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہیں۔ اس موقع پر خصوصی دعائیہ تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔
زیارت خدشات کے سائے میں
بھارت، برطانیہ اور مشرق وسطیٰ سے حسن ابدال پہنچنے والے سکھ ایک ایسے وقت میں پاکستان پہنچے ہیں جب پاکستان میں آباد سکھ برادری گزشتہ برس اگست اور ستمبر کے ماہ میں چھ سکھوں کے قتل کے دہشت گردانہ واقعات کے صدمے اور خوف سے دو چار ہے۔ پاکستان میں اس وقت 20 ہزار سکھ باشندے زنذؒگی بسر کر رہے ہیں اور ان کی اکثریت پاکستان کے شورش زدہ شمال مغربی علاقوں میں آباد ہیں۔ ان سکھوں میں سے زیادہ تر بزنس اور تجارت کے شعبے سے منسلک ہیں۔
بائیس سالہ ہر چرن سنگھ پشاور میں ایک مصالحہ جات اور راشن کی دکان کا مالک ہے۔ گزشتہ ستمبر میں ایک سکھ کے قتل کا چشم دید گواہ ہیں۔ تب اس کے دوست ہرجیت سنگھ کو ایک نامعلوم شخص نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ ہرچرن سنگھ کہتا ہے،"یہ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہوا، ایک موٹر سائیکل سوار آیا۔ اُس نے میرے دوست کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور نہایت تیز رفتاری سے بھاگ گیا۔ کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ کیا ہوا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ قاتل کون تھا، یہی نہیں بلکہ ہماری برادری کے چھ افراد اسی طرح مارے گئے، ہم پر چھ حملے ہوئے اور اب تک اس کا کچھ پتہ نہیں چل سکا کہ انہیں کس نے اور کیوں مارا ؟‘‘
ہرجیت کی فیملی قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کی وادئ تیرہ میں آٹھ برس قبل ہونے والے پاکستانی فوج کے آپریشن کے وقت وہاں سے فرار ہو کر پشاور آ بسی تھی۔ بعد ازاں پشاور میں انہوں نے ایک دکان کھول لی تھی۔ ہرجیت کے والد ہربھان سنگھ کہتے ہیں،" ہم یہاں پاکستان بننے سے کہیں پہلے سے آباد ہیں۔ برطانوی راج سے بھی پہلے سے۔ ہمیں کبھی کوئی پریشانی لاحق نہیں تھی"۔ ہرجیت سنگھ اپنی مقدس کتاب کی زبان پنجابی کی بجائے صرف پشتو بولتا ہے۔ اس کی دو بیٹیاں ہیں۔ اس فیملی کا کہنا ہے کہ وہ سکھوں کی ہلاکت کے واقعے کے سبب اس قدر صدمے میں ہیں کہ انہیں اب بھی یہ سمجھنے میں مشکل درپیش ہے کہ آخر پاکستان میں بسنے والی سکھ برادری پر یکایک حملوں کا سلسلہ کیوں شروع ہوا ؟
غیر ملکی سکھوں کے لیے پاکستان میں کشش
پانچ سو سال پرانے مذہب سکھ مت کی بنیاد 200 ملین کی آبادی والی اسلامی ریاست پاکستان میں ہی رکھی گئی تھی۔ 1947ء میں تقسیم ہند اور برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے وقت زیادہ تر سکھ پاکستان سے بھارت کی طرف نقل مکانی کر گئے تھے۔ پاکستان میں رہ جانے والی سکھ برادری گزشتہ دہائی سے پہلے تک کبھی بھی خود کو غیر محفوظ محسوس نہیں کرتی تھی۔ تاہم ان کا سکون گزشتہ سال کی دوسری ششماہی میں اُس وقت برباد ہو کر رہ گیا جب سکھوں پر حملے شروع ہوئے اور ان کے چھ اراکین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
دوسرے ممالک سے پاکستان آنے والے سکھ باشندوں کے لیے تاہم پاکستان کی کشش ماند نہیں پڑی ہے۔ اس سال حسن ابدال میں پنجہ صاحب کے سالانہ مذہبی تہوار کے موقع پر حکومت پاکستان نے پولیس کی ایک ہزار نفری کو پانچ ہزار سکھ زائرین کی حفاظت کے لیے تعینات کیا ہے۔ تین روز تک جاری رہنے والا ’ بیساکھی تہوار ‘ دراصل سکھوں کے نئے سال کا تہوار ہے۔
بھارتی شہر امرتسر سے پنجہ صاحب آنے والے ایک 77 سالہ سکھ دکاندار بھگوت سنگھ اور اس کی بیوی پہلی بار اس زیارت پر پاکستان آئے ہیں۔ بھگوت سنگھ کہتے ہیں،"میں اس جگہ کو دیکھنے کی دیرینہ تمنا رکھتا تھا، میں پہلی بار یہاں آیا ہوں اور مجھے بہت ہی سکون محسوس ہو رہا ہے"۔ سنگھ نے مقامی حکام کی گرمجوشی کی بہت تعریف کی۔