1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حزب اللہ کا حملہ: دو اسرائیلی فوجی ہلاک، سات زخمی

امتیاز احمد28 جنوری 2015

اسرائیل اور لبنان کی شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ کے ایک دوسرے پر کیے گئے حملوں میں کم از کم دو اسرائیلی فوجی ہلاک جبکہ سات زخمی ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے مطابق حملے کے ذمہ داروں کو اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔

https://p.dw.com/p/1ESMg
Beschuss an der Grenze zwischen Israel und Libanon 28.01.2015
تصویر: Reuters/K. Daher

تشدد کی اس نئی لہر سے مشرق وسطیٰ کے دو حریفوں کے مابین ایک نئے تنازعے کے پیدا ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ قبل ازیں 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین جنگ چھڑی تھی، جو تقریبا ایک ماہ تک جاری رہی تھی۔ اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ اسرائیل کے زیر قبضہ سرحدی علاقے میں ان کے ایک فوجی قافلے پر حملے کے نتیجے میں دو فوجی ہلاک جبکہ دیگر سات زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیل کے مقامی میڈیا کے مطابق زخمی ہونے والے فوجیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ فوجی قافلے پر اینٹی ٹینک میزائل داغے گئے۔

دوسری جانب حزب اللہ نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے اٹھارہ جنوری کے اسرائیلی حملے کا بدلہ قرار دیا ہے۔ رواں برس اٹھارہ جنوری کو گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی حملے میں ایک ایرانی جنرل اور چھ حزب اللہ کے کارکن مارے گئے تھے۔

اسرائیل نے فی الحال اس حملے کا جواب جنوبی لبنان میں فضائی اور زمینی حملوں کی صورت میں دیا ہے۔ لبنان کی سکیورٹی فورسز کے مطابق اسرائیل نے متعدد سرحدی دیہات کو نشانہ بنایا ہے۔ لبنان کی جانب سے فی الحال ہلاکتوں کی کوئی بھی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔

امن فوجی کی ہلاکت

دوسری جانب اسرائیل کی طرف سے جنوبی لبنان پر کی جانے والی بمباری سے اقوام متحدہ کا ایک امن فوجی ہلاک ہو گیا ہے۔ اس امن فوجی کا تعلق اسپین سے بتایا گیا ہے۔ شام اور اسرائیل کی جنگ کے بعد سے گولان پہاڑیوں پر اقوام متحدہ کے امن فوجی تعینات ہیں تاکہ شام اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی قائم رہے۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد شام اور اسرائیل کے مابین 1974ء میں جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت شام کے فوجی گولان پہاڑیوں یا 70 کلومیٹر طویل ’مخصوص علاقے‘ میں داخل نہیں ہو سکتے اور تب سے وہاں اقوام متحدہ کے امن فوجی تعینات ہیں۔ شام کی خانہ جنگی اور خطے کی کشیدہ ہوتی ہوئی صورتحال کے باعث آسٹریا، جاپان اور کروشیا پہلے ہی اپنے امن فوجی اس علاقے سے نکال چکے ہیں۔

کشیدگی میں اضافہ

المنار ٹیلی وژن پر جاری ہونے والے ایک بیان میں حزب اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’دشمن کی صفوں میں متعدد ہلاکتیں ہوئی ہیں‘‘۔ اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ جوابی کارروائی کے سلسلے میں وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو صلاح مشورہ کے بعد مزید کارروائی ممکن ہے اور ویسے بھی اسرائیلی فوج کسی بھی محاذ پر پوری طاقت سے جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پرتشدد حملے کے ذمہ داروں کو قیمت ادا کرنا ہو گی۔ قبل ازیں اسرائیل کی طرف سے اقوام متحدہ سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے۔

چین کے دورے پر گئے ہوئے سخت گیر اسرائیلی وزیر خارجہ اویگدور لیبرمن نے کہا ہے کہ اسرائیل کو ’سخت جواب‘ دینا چاہیے۔ فوج کے ترجمان نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل مزید اقدامات پر غور کر رہا ہے۔

دوسری جانب حماس کی جانب سے اس حملے کی تعریف کی گئی ہے۔ اس حملے سے پہلے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے شام میں بار بار حملے کرنے پر اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ حزب اللہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔