1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حاملہ جنوبی افریقی خواتین: روکی جا سکنے والی اموات کی شرح بہت زیادہ

کشور مصطفیٰ9 اکتوبر 2014

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ سے یہ پتہ بھی چلا ہے کہ 2012ء میں جنوبی افریقہ میں ماؤں کی 60 فیصد اموات قابل گریز تھیں، یعنی ان خواتین کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔

https://p.dw.com/p/1DSe9
تصویر: dapd

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ براعظم افریقہ کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک جنوبی افریقہ میں اب بھی حاملہ خواتین کی روکی جا سکنے والی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی افریقہ میں ایسی حاملہ خواتین جنہیں موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکتا ہے، کی ایک بڑی تعداد بچے کی پیدائش سے قبل ماں کی مناسب طبی دیکھ بھال کے فقدان کے سبب لقمہء اجل بن رہی ہے۔

جنوبی افریقہ میں بچوں کو جنم دینے والی ہر ایک لاکھ خواتین میں سے 269 عورتیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں جبکہ پریٹوریا حکومت نے 2015ء تک کے لیے ایک ہدف طے کیا تھا جس کے تحت ملک میں حاملہ خواتین میں اموات کی شرح میں واضح کمی لاتے ہوئے یہ تعداد 38 تک لائی جانا تھی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ سے یہ پتہ بھی چلا ہے کہ 2012ء میں جنوبی افریقہ میں ماؤں کی 60 فیصد اموات قابل گریز تھیں، یعنی ان خواتین کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔

Symbolbild Schwangerschaft Leihmutter
حاملہ خواتین کے لیے مناسب طبی سہولیات کا فقدان اُن کی جان لے سکتا ہےتصویر: NICOLAS ASFOURI/AFP/Getty Images

جنوبی افریقہ کے نظام صحت کے تحت حاملہ خواتین کے لیے بچے کی پیدائش سے قبل کے طبی معائنے اور دیکھ بھال مفت فراہم کیے جاتے ہیں تاہم ان عورتوں کو طبی مراکز تک پہنچنے کے عمل میں گونا گوں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کلینکس تک رسائی کے لیے طویل سفر کرنا پڑتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے محققین نے جنوبی افریقہ کے چند علاقوں کا دورہ کیا جس کے بعد انہوں نے آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہا، ’’دور دراز علاقوں تک رسائی ناممکن ہے۔ اگر موسم خراب نہ بھی ہو اور بارش بھی نہ ہو رہی ہو، تب بھی ایمبولینسیں چند مخصوص علاقوں سے آگے نہیں جاتیں۔‘‘

جنوبی افریقہ کی خواتین نے ایک اور اہم مسئلے کی شکایت بھی کی ہے اور وہ یہ کہ زیادہ تر سرکاری ہسپتالوں اور طبی مراکز میں مریضوں کی پرائیویسی، اُن کے ذاتی کوائف اور حالات سے متعلق معلومات کی رازداری کے حوالے سے بھی کوئی ضمانت نہیں دی جاتی۔ اس ضمن میں ایک بڑا مسئلہ لڑکیوں اور خواتین سے متعلق ہے۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ان میں مبینہ طور پر موجود ایچ آئی وی وائرس کے بارے میں کسی کو پتہ چلے لیکن سرکاری شفا خانوں میں یہ بات راز میں رہ ہی نہیں سکتی۔ اس طرح ایچ آئی وی وائرس کی شکار لڑکیوں اور خواتین کے بارے میں اگر کسی کو پتہ چل جائے تو انہیں معاشرے میں بہت زیادہ حد تک امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

Neugeborene in Afrika FLASH Galerie
لاتعداد بچوں کی ماؤں کو زندہ رکھنے کے لیے اُن کی دیکھ بھال ضروری ہوتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جنوبی افریقہ میں آبادی کا قریب دس فیصد حصہ، یعنی قریب چھ ملین انسان ایچ آئی وی وائرس کے شکار ہیں یا ایڈز کے موذی عارضے میں مبتلا ہیں۔ اس کے علاوہ بچے کی پیدائش کے عمل کے دوران یا پیدائش کے فوراً بعد ماؤں کی اموات میں سے ایک تہائی کا سبب یہی ایچ آئی وی وائرس بنتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس سروے کے لیے جنوبی افریقہ کی قریب 15 مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والی 200 خواتین کو چنا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں