1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنیوا میں چہار فریقی اجلاس، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

Andrea Lueg18 اپریل 2014

آخر کار روس نے مشرقی یوکرائن میں علیحدگی پسندوں کے لئے اپنی حمایت واپس لینے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ اسی پیش رفت کی وجہ سے چہار فریقی اجلاس کو کامیاب کہا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Bkjl
تصویر: picture-alliance/dpa

ایسٹر کے موقع پر جنیوا علامیہ روس، یورپی یونین، امریکا اور یوکرائن کی طرف سے پیش کیا جانے والا امن کا ایک ایسا بہترین پیغام ہے، جس کی خوشی مشرقی اور مغربی گرجا گھروں میں ایک ساتھ منائی جائے گی۔ اب فیصلہ کن بات یہ ہو گی کہ آئندہ دنوں میں اس اعلان کردہ منصوبے پر عملدرآمد بھی کیا جاتا ہے یا نہیں، مسلح علیحدگی پسند ہتھیار پھینکیں گے یا نہیں، مقبوضہ سرکاری عمارتوں کو خالی کیا جائے گا یا نہیں۔ لیکن روس سمیت تمام فریقین نے اس عمل کو تیز تر کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ ایک ایسی پیش رفت ہے، جو صورتحال کو مزید کشیدہ ہونے سے روک سکتی ہے۔ دوسری جانب یوکرائن نے بھی ایسی آئینی تبدیلیاں لانے کا وعدہ کیا ہے، جن سے یوکرائن میں روسی زبان بولنے والے گروہوں کو مزید حقوق ملیں گے اور ان کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی۔ اس کے علاوہ یوکرائن میں دائیں بازو کے انتہاپسندوں کو بھی غیر مسلح کیا جائے گا۔

سب سے اہم بات روسی وزیر خارجہ سرگئی لاووروف کا یہ تسلیم کرنا ہے کہ مشرقی یوکرائن میں باقاعدہ فوج نہیں بھیجی جائے گی۔ جنیوا کانفرنس میں روسی وزیر خارجہ کا حیران کن امن پسندانہ کردار سامنے آیا، باوجود اس کےکہ وہ ابھی تک یوکرائن کی نئی حکومت کو جائز تسلیم نہیں کرتے۔ شاید روس کو اندازہ ہو گیا ہے کہ یوکرائن کے خلاف اقتصادی پابندیاں طویل المدتی بنیادوں پر اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گی۔ امریکا اور یورپی یونین کئی ہفتوں سے یہی بات دہرا رہے تھے اور لگتا ہے کہ یہ پیغام روس تک پہنچ گیا ہے۔

بحران کا حل کامیاب سفارتکاری میں

روس کا یہ فیصلہ بھی قابل تعریف ہے کہ یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم (او ایس زیڈ ای) کو یوکرائن میں علیحدگی پسندوں کو غیر مسلح کرنے کے عمل کی نگرانی کرنے کی اجازت ہوگی۔ نتیجے کے طور پر روس کے خلاف ممکنہ اقتصادی پابندیوں کی نوبت بھی نہیں آئے گی۔ اس صورتحال نے یورپی یونین کو بھی اس تکلیف دہ فیصلے سے بچا لیا ہے، جو پہلے ہی اندرونی طور پر متنازعہ تھا۔ یورپی یونین روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے معاملے میں منقسم ہے، ڈر تھا کہ روس تیل اور گیس کی ترسیل روک سکتا ہے۔

لیکن مغرب کو سفارتکاری کی اس جیت کی قیمت بھی چکانا پڑی ہے، کریمیا اب روس کا حصہ ہے اور اُسی کا رہے گا۔ امریکا، یورپی یونین اور یوکرائن مکمل طور پر خاموش ہو چکے ہیں، پہلے انہی نے کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اب جنیوا اعلامیے میں کریمیا کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔

یوکرائنی بحران نے مغرب اور روس کے مابین اعتماد کو بھی مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے، جسے اب بڑی محنت کے ساتھ دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے روس اور یورپی یونین تعاون بلکہ اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کی کوششوں میں تھے لیکن اب ایسا کرنا ناممکن لگتا ہے۔ روسی وزیر خارجہ کے بقول انہیں امید ہے کہ یوکرائن مستقبل میں غیرجانبدار رہے گا، دوسرے لفظوں میں کسی کا فوجی اتحادی نہیں بنے گا۔

اب روس کو اپنے چالیس ہزار فوجی یوکرائنی سرحد سے واپس بلانا ہوں گے اور نیٹو کو بھی اپنے اتحادی ملک پولینڈ میں راکٹ نصب کرنے کے منصوبے کو لمبے عرصے کے لیے ملتوی کرنا ہوگا۔

روسی وزیر خارجہ نے جنیوا میں کہا ہے کہ یوکرائن کو خود اپنی قسمت کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ امید ہے صدر پوٹن بھی اس سے متفق ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کریمیا کے الحاق کے ساتھ روسی صدر کی اقتدار کی بھوک ختم ہو جائے گی ؟