جنیوا مذاکرات میں ڈیل طے تاہم صدر اوباما مبتلائے شک
18 اپریل 2014جمعرات کے دن سوئٹزرلینڈ کے شہرجنیوا میں منعقد ہوئے ان ہنگامی مذاکرات کے بعد جاری کیے گئے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا، ’’اطراف کسی بھی طرح کے پرتشدد واقعے، اشتعال انگیزی یا دھمکانے سے باز رہیں۔‘‘ مزید کہا گیا کہ یوکرائن میں تمام غیر قانونی گروہ غیر مسلح ہو جائیں، قبضہ کی گئی عمارتوں کو ان کے مالکان کے حوالے کر دیا جائے اور یوکرائن کی سڑکوں، چوکوں یا دیگر عوامی مقامات کو غیر قانونی طور پر اپنے کنٹرول میں لینے والے افراد انہیں خالی کر دیں۔
یہ امر اہم ہے کہ یوکرائن کے علاقے کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق کے بعد یوکرائن کے دس مشرقی شہروں میں روس نواز جنگجوؤں نے متعدد حکومتی عمارتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں بھی ایک ریفرنڈم کرایا جائے تاکہ لوگ فیصلہ کر سکیں کہ وہ روس کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا یوکرائن کا۔ اسی دوران کییف حکومت نے ان جنگجوؤں کے خلاف عسکری کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ جنگجو ہتھیار نہیں پھینکتے تو ان شہروں میں حکومتی رٹ قائم کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔
اس صورتحال میں جنیوا میں ہوئے یہ مذاکرات انتہائی اہم تصور کیے جا رہے تھے، جس میں اس تنازعے کی شدت کو کم کرنے کے لیے امریکا، روس اور یوکرائن کے وزرائے خارجہ کے علاوہ یورپی یونین کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ ان مذاکرات میں مظاہرین کو عام معافی دیے جانے کے علاوہ کییف حکومت نے ان علاقوں کو زیادہ خود مختاری دینے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ ان مذاکرات میں لیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کی نگرانی سلامتی وتعاون کی یورپی تنظیم (او آئی سی ای) کو سونپی گئی ہے۔
جنیوا مذاکرات کی بظاہر کامیابی کے باوجود امریکی صدر باراک اوباما نے روس کے رویے پر شک کے اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس ڈیل کو ایک اہم پیشرفت قرار دیتے ہوئے البتہ کہا کہ یہ دیکھنا ہو گا کہ روس یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں اپنا اثرورسوخ کس طرح استعمال کرتا ہے۔ مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ یوکرائن کے ان علاقوں میں ماسکو حکومت مظاہرین کی حمایت کر رہی ہے تاکہ کییف حکومت پر دباؤ مزید بڑھایا جا سکے۔
صدر اوباما نے جمعرات کو واشنگٹن میں جنیوا مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر روس نے یوکرائن کے بحران کے حل کے لیے مؤثر اقدامات نہ لیے تو ان کی انتظامیہ روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس وقت ہم کسی بات کے بارے میں یقینی نہیں ہیں۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے بقول جنیوا مذاکرات کے دوران بہت اچھی باتیں کی گئی ہیں تاہم حقیقت اعمال سے ظاہر ہو گی۔ انہوں نے بھی دہرایا کہ اگر ماسکو حکومت اپنے وعدوں پر برقرار نہیں رہتی تو اس کے خلاف سخت پابندیاں خارج ازامکان نہیں ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان مذاکرات میں تواقعات سے زیادہ پیشرفت ہوئی ہے۔ تاہم ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ ان مذاکرات کو اس وقت تک بڑی کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک ان میں کیے گئے وعدوں کو عملی شکل نہیں دے دی جاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب عالمی طاقتوں کو روس کے قول و فعل میں ہم آہنگی دیکھنے کا انتطار ہو گا۔