1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی کوریا میں بحری جہاز کا حادثہ، وائس پرنسپل نے خودکشی کر لی

عاطف توقیر18 اپریل 2014

جنوبی کوریا میں ڈوبنے والے بحری جہاز میں سینکڑوں طالب علموں کے ہمراہ ایک وائس پرنسپل کو زندہ بچا لیا گیا تھا، تاہم جمعے کے روز اس استاد نے ایک درخت سے لٹک کر اپنی جان دے دی۔

https://p.dw.com/p/1Bkkl
تصویر: Reuters

جوں جوں اس ڈوبنے والے جہاز میں پھنسے 268 افراد کے بچنے کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں، جنوبی کوریا میں ایک طرف تو امدادی سرگرمیوں کی مستعدی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور دوسری جانب عوام غم و غصے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

حادثے کا شکار ہونے والے اس جہاز میں 469 افراد سوار تھے جن میں تین سو سے زائد جنوبی کوریا کے ایک اسکول کے طالب علم تھے، جو ایک تعلیمی سفر پر تھے۔ اس اسکول کے وائس پرنسپل بھی اس بحری جہاز میں طالب علموں کے ساتھ تھے، تاہم حادثے کے بعد بدھ کے روز 52 سالہ کَنگ مِن گیو کو اس ڈوبتے جہاز سے زندہ نکال لیا گیا تھا۔ حکام کے مطابق کَنگ کے ایک ساتھی استاد نے گزشتہ روز پولیس کو بتایا تھا کہ کَنگ لاپتہ ہیں، جس کے بعد پولیس نے ان کی تلاش شروع کر دی تھی۔ پولیس کے مطابق کَنگ ایک درخت سے لٹکے پائے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ کَنگ نے جنوبی کوریا کی بندرگاہ جِندو کے اسی علاقے میں ایک درخت کے ساتھ لٹک کر خود کو پھانسی دی دے، جہاں اس اسکول کے متاثرہ طالب علموں کے رشتہ دار ان بچوں کی واپسی کی امیدیں لگائے منتظر ہیں۔

Südkorea Fährunglück Kapitän Lee Jun-Seok
اس جہاز کے کپتان سے بھی پوچھ گچھ کی جا رہی ہےتصویر: picture-alliance/Yonhap

پولیس کے مطابق کَنگ نے اپنی موت سے متعلق کوئی نوٹ نہیں چھوڑا ہے۔ جنوبی کوریا کے حکام کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اس جہاز میں پھنسے افراد میں سے اب تک 179 کو ہی بچایا جا سکا ہے۔ اب تک حکام نے 28 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ غوطہ خور پوری مستعدی سے اس جہاز کے مختلف حصوں تک رسائی کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ زندہ افراد کو بچایا جا سکے، تاہم بدھ کے روز ڈوبنے والے اس جہاز میں موجود افراد کے زندہ بچنے کی امیدیں اب رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جنوبی کوریا میں گزشتہ 21 برس کے اس بدترین بحری حادثے کی وجوہات سے متعلق تفتش بھی جاری ہے۔ اس سلسلے میں اس بحری جہاز کے عملے کی ممکنہ لاپرواہی کی تفیش کی جا رہی ہے، تاہم بتایا گیا ہے کہ سلامتی اور محفوظ ہونے کے اعتبار سے جہاز ہر طرح سے درست تھا۔

اس حوالے سے اس جہاز کے 69 سالہ کپتان کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کے بارے میں عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حادثے کے وقت اس جہاز سے نکل جانے والوں میں کپتان بھی شامل تھا۔ تفتیش کاروں کے مطابق جہاز کے ایک جانب جھکنے کے وقت کپتان لی جون سیوک اس حصے میں موجود نہیں تھا، جہاں سے جہاز کو کنٹرول کیا جاتا ہے، بلکہ وہاں ایک جونیئر آفیسر کنٹرول ویل پر متعین تھا۔

اس جہاز کے عملے میں شامل او یُنگ سیوک نے بتایا کہ حادثے کے وقت وہ اپنی ڈیوٹی ختم کر کے آرام کر رہا تھا۔ اس وقت ہسپتال میں زیرعلاج او یُنگ کا کہنا تھا، ’مجھے نہیں معلوم کہ کپتان حادثے کے وقت کہاں تھا، تاہم میں نے اسے اسٹیرنگ روم کی جانب بھاگتے دیکھا۔‘