1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا کی شپ بریکنگ انڈسٹری کے لیے گہرا دھچکا

عابد حسین31 مارچ 2015

یورپی یونین کے نئے قوانین کے تحت عالمی شپ بریکنگ انڈسٹری میں کلیدی کردار کی حامل جنوبی ایشیائی مارکیٹوں کو گہرا نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔ نئے قوانین سے چین، ترکی اور بعض یورپی ممالک مستقید ہو سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/1F02x
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/GettyImages

یورپی کمیشنر برائے ماحولیات اور سمندری امور کارمینو وَلا نے جنوبی ایشیا کے ساحلی علاقوں میں پرانے یورپی بحری جہازوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی انڈسٹری کے مجموعی ماحول اور کام کرنے کے حالات کو افسوسناک اور شرمناک قرار دیا ہے۔ نئے قانون کے تحت یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں رجسٹرڈ بحری جہازوں کی بریکنگ کے لیے اب ایسے بندرگاہی مقامات کا تعین کرنا پڑا گا جہاں مزدوروں کے لیے پائیدار اور مناسب ماحول ہونے کے علاوہ بحری جہاز کا کچرا اور کیمیاوی مادے سمندری پانی میں شامل کرنے کے بجائے تلف کرنے کے ماحول دوست طریقوں پر عمل کرنے کے سہولت میسر ہو گی۔ امکاناً ایسے بندرگاہی مقامات چین، شمالی امریکا اور یورپی یونین کی بعض ریاستوں میں دستیاب ہوں گے۔

یورپی یونین کے نئے انتظام کے تحت چین، یورپ اور شمالی امریکا کے علاوہ ترکی کے بعض ساحلی علاقے بھی نئی شپ بریکنگ انڈسٹری کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اِس انڈسٹری سے وابستہ ایک غیر سرکاری تنظیم ’شپ بریکنگ پلیٹ فارم‘ سے منسلک پیٹریسیا ہائیڈیگر کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے فیصلے سے یہ انڈسٹری دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی اور ایک حصہ محفوظ مارکیٹ جبکہ دوسرا غیر معیاری مارکیٹ کہلائے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ جنوبی ایشیا میں شپ بریکنگ کی سہولت بہت بڑی ہے اور یہ کم لاگت والی بھی ہے۔ کئی مضر کیمیکل مادوں کو تلف کرنے کے معیاری طریقے بھی موجود نہیں ہیں۔ اِس باعث پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کی انڈسٹری ناکارہ بحری جہازوں کے مالکان کے لیے کم خرچ بالا نشین کے اصول کے مطابق ہے۔

Abwracken von Schiffen in Geddani Pakistan
گڈانی میں ایک بحری جہاز کو کاٹنے کا عمل جاری ہےتصویر: Roberto Schmidt/AFP/GettyImages

جنوبی ایشیا میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے بعض علاقے شپ بریکنگ انڈسٹری کے لیے مشہور ہیں۔ پاکستان میں گڈانی کا ساحلی مقام اِس صنعت میں عالمی شہرت رکھتا ہے۔ سن 2014 میں سمندروں میں 1026 بحری جہازوں اور آئل ٹینکروں کو بوسیدہ قرار دے کر ناکارہ قرار دیا گیا تھا۔ اِن میں سے 641 ناکارہ بحری جہاز پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کی شپ بریکنگ انڈسٹری کے حصے میں آئے تھے۔ شپ بریکنگ ایک مشکل اور انتہائی محنت طلب کام تصور کیا جاتا ہے۔

جنوبی ایشیا کی شپ بریکنگ انڈسٹری میں غیرہنر مند افراد کی بے پناہ شرکت نے اِس پیشے کو مشکل اور انسان دشمن کی ہیت دے دی ہے۔ ان افراد کی وجہ سے کئی کیمیاوی مادے والے بحری جہازوں سے زہریلا کیمیکل مواد سمندر میں تواتر سے شامل ہوتا رہتا ہے۔ کئی بحری جہازوں کو کاٹنے اور توڑنے کے عمل میں اموات بھی واقع ہوئی ہیں۔ بھارتی شہر ممبئی میں قائم ٹاٹا انسٹیٹیوٹ برائے سوشل سائنسز کے مطابق گزشتہ بیس برسوں میں شپ بریکنگ کے عمل میں 470 انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ یہ اموات شپ بریکنگ انڈسٹری میں دنیا کی سب سے بڑی ساحلی پٹی الانگ سوسیاہ میں ہوئی تھیں۔ یہ ساحلی پٹی بھارتی ریاست گجرات میں واقع ہے۔ الانگ سوسیاہ میں شپ بریکنگ انڈسٹری سے 35 ہزار سے زائد ایسے لوگ وابستہ ہیں جو غیر ہنرمند ہونے کے علاوہ دوسرے علاقوں سے روزگار کی تلاش میں آئے ہیں۔