1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جموں و کشمیر میں پہلی بار ہندو قوم پرست بھی اقتدار میں

کشور مصطفیٰ27 فروری 2015

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعے کے روز یہ باقاعدہ اعلان کر دیا کہ ریاست جموں و کشمیر میں قائم ہونے والی آئندہ مخلوط حکومت میں ملکی سطح پر حکمران اُن کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بھی شامل ہو گی۔

https://p.dw.com/p/1EigV
تصویر: Reuters

اس طرح یہ پہلا موقع ہو گا کہ مسلمانوں کی اکثریت والی بھارتی ریاست جموں و کشمیر میں ہندو قوم پسندوں کی پارٹی بی جے پی حکومت سازی کرے گی۔ حالیہ ریاستی الیکشن میں کسی بھی پارٹی کو بھاری اکثریت نہیں مل سکی تھی۔ اسی لیے حکومت سازی کا عمل التوا کا شکار تھا۔ مخلوط حکومت کے قیام سے متعلق نئی دہلی میں مذاکرات وزیر اعظم نریندر مودی اور جموں و کشمیر کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ مفتی محمد سعید نے کیے۔ مفتی محمد سعید نئے ریاستی وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ ان کی حلف برداری آئندہ اتوار کے روز متوقع ہے۔

نئی دہلی میں ملکی وزیر اعظم مودی کے ساتھ اپنی حتمی بات چیت کے بعد مفتی محمد سعید کا کہنا تھا، ’’ہمیں مشترکہ بنیاد مل گئی ہے۔ ہم نے حکومت سازی کے تمام پہلوؤں پر بحث کی ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام کے دلوں اور اذہان کو جوڑنے کا یہ ایک نادر موقع ہے۔‘‘

ہمالیہ کی یہ شورش زدہ ریاست روایتی طور پر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی پی ڈی پی اور دوسری علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس کے غلبے والی ریاست رہی ہے۔ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی پہلی بار اس ریاست میں مد مقابل کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی ہے۔ اس پارٹی کو ہندوؤں کی اکثریت والے علاقے جموں میں کامیابی ملی تاہم مسلم اکثریتی آبادی والی وادی کشمیر میں اس پارٹی کو ایک بھی سیٹ نہ مل سکی۔ کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ اس طرح بی جے پی اور پی ڈی پی نے مل کر مخلوط حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔

Narendra Modi Indien besucht Kaschmir
گزشتہ برس نریندر مودی کشمیر کے دورے پرتصویر: picture-alliance/dpa

دونوں اتحادی جماعتیں بھارتیہ جنتا پارٹی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نظریاتی طور پر چند کلیدی نوعیت کے مسائل کے ضمن میں ایک دوسرے سے متضاد موقف رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر ریاست کی ایک خصوصی خود مختار حیثیت اور جموں و کشمیر میں تعینات بھارتی فوجی دستوں کی تعداد کے بارے میں دونوں کے مابین گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں۔

ریاست جموں و کشمیر میں سے کشمیر دو حصوں میں منقسم ہے۔ کشمیر کا ایک حصہ بھارت کے زیر انتظام ہے اور دوسرا پاکستان کی عملداری میں ہے۔ پاکستان اور بھارت پڑوسی ممالک ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے روایتی حریف ہیں۔ جنوبی ایشیا کی ان دونوں جوہری طاقتوں کے مابین جنگیں بھی ہو چکی ہیں، جن میں سے دو جنگوں کی وجہ کشمیر ہی کا تنازعہ بنا تھا۔

Anhänger der Bharatiya Janata Partei im indischen Teil Kaschmirs
بی جے پی کو محض جموں میں کامیابی ملیتصویر: picture-alliance / dpa

بھارتی حکومت بار ہا پاکستان پر کشمیری عسکریت پسندوں کی مدد اور اُن کی پشت پناہی کا الزام عائد کرتی رہی ہے جبکہ اسلام آباد کی طرف سے ہمیشہ ایسے الزمات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔ پاکستان کشمیری عسکریت پسندوں کو اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والے حریت پسند قرار دیتا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی خود بھی ایک ہندو قوم پرست سیاستدان ہیں لیکن ان کا المیہ یہ ہے کہ اب ان کی اپنی سیاسی جماعت میں سے ایسے مذہبی انتہا پسندوں کی آوازیں بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی ہیں، جو مودی سے مسلسل یہ مطالبے کر رہے ہیں کہ وہ سیاست میں اپنی پوری توجہ ہندو قوم پسندانہ ایجنڈے پر مرکوز رکھیں۔