1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جسرالشغور پر حملہ آور باغیوں کے خلاف شامی فضائیہ کی بمباری

عاطف بلوچ26 اپریل 2015

شامی فضائیہ نے صوبہ ادلب کے شہر جسرالشغور کے نواحی علاقوں میں القاعدہ کے حامی شدت پسندوں پر بمباری کی ہے۔ یہ جہادی کامیاب پیشقدمی کرتے ہوئے اس اہم شہر کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FF8C
تصویر: Getty Images/AFP/John Cantlie

شامی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ آج اتوار 26 اپریل کے روز صدر بشارالاسد کی افواج نے عسکری حوالے سے انتہائی اہم تصور کیے جانے والے شہر جسرالشغور پر چڑھائی کرنے والے اسلام پسند باغیوں کو نشانہ بنایا۔ شام کے حالات و واقعات پر نظر رکھنے والے اس غیر سرکاری ادارے کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے اتوار کے دن بتایا کہ اس شہر پر کم از کم چار حملے کیے گئے ہیں۔ ادلب کے صوبے میں یہی مقام شامی افواج کا آخری گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔

جسرالشغور میں تازہ فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد معلوم نہیں ہو سکی لیکن آبزرویٹری کے مطابق ہفتے کے دن اس علاقے میں کی گئی بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب ستائیس ہو چکی ہے۔ رامی عبدالرحمان نے اے ایف پی کو بتایا، ’’گزشتہ روز کیے گئے فضائی حملوں کے نتیجے میں اب تک دو شہری اور بیس جنگجو مارے گئے ہیں جبکہ ہلاک ہونے والے پانچ دیگر افراد کی شناخت نہیں ہو سکی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہفتے کی رات اور آج اتوار کے دن بھی فضائی بمباری کا سلسلہ جاری رہا، اس لیے مرنے والوں کی تعداد یقینی طور پر بڑھی ہو گی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس شہر کے جنوبی علاقوں میں باغیوں اور شامی دستوں کے مابین شدید لڑائی جاری ہے۔

Syrien Rebellen Provinz Idlib
جسرالشغور میں تازہ فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد معلوم نہیں ہو سکی ہےتصویر: Reuters/M. Bayoush

شام میں فعال القاعدہ سے منسلک النصرہ فرنٹ اور دیگر اسلام پسند باغیوں کے اتحاد نے ہفتے کے دن جسرالشغور کا محاصرہ کر لیا تھا، جس کے بعد جھڑپوں کا تازہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ ایک ماہ قبل ہی ان باغیوں نے صوبہ ادلب کے دارالحکومت پر قبضہ کیا تھا۔ دمشق حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ جسرالشغور کے بیرونی علاقوں میں اضافی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں تاکہ شہری جانوں کا ضیاع روکا جا سکے۔ شام کے سرکاری میڈیا نے ایک فوجی بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے، ’’فوجی یونٹس نے رات بھر چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھیں تاکہ شہر میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے دہشت گردوں کا راستہ روکا جا سکے۔‘‘

دمشق حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ ان باغیوں نے شہر میں داخل ہونے کے بعد تیس شہریوں کو ہلاک کر دیا، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔ تاہم اس ’قتل عام‘ کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ ادھر سیریئن آبزرویٹری نے کہا ہے کہ اسے ان مبینہ ہلاکتوں کے بارے میں کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ رامی عبدالرحمان نے البتہ یہ تصدیق کی کہ ہفتے کے دن صدر اسد کی حامی افواج کے ساٹھ اہلکار ہلاک کر دیے گئے، جن کی لاشیں سڑکوں پر بکھری پڑی دیکھی گئی تھیں۔ شام کا تنازعہ پانچویں برس میں داخل ہو چکا ہے اور اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اس دوران اب تک دو لاکھ بیس ہزار سے زائد انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔