1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کرد ملیشیا کو اسلحہ دینے پر راضی

عدنان اسحاق20 اگست 2014

طویل سوچ و بچار کے بعد جرمن حکومت نے عراق میں آئی ایس کے خلاف کارروائیوں میں کرد جنگجوؤں کو ہتھیار فراہم کرنے کا اعلان کی اہے۔۔ جرمن وزیر خارجہ کے بقول آئی ایس کی وحشیانہ کارروائیوں نے حکومت کو بھی پریشان کیا ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CyDO
تصویر: Odd Anderson/AFP/Getty Images

جرمن حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ چانسلر انگیلا میرکل اور وزیر دفاع ارزولا فان ڈیئر لائن کے مابین اسلحہ فراہم کرنے کے معاملے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ چانسلر میرکل نے فان ڈیئر لائن سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ٹھوس تجاویز پیش کریں۔ تاہم یہ ابھی تک نہیں بتایا گیا ہے کس قسم کا اسلحہ عراق کو دیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق شمالی عراق میں لڑنے والے کرد جنگجوؤں کو ٹینک شکن میزائل فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ خارجہ امور کی کمیٹی کے رکن فلپ مِسفیلڈر کے بقول کرد ملیشیا کو مغربی ممالک سے ایک خاص قسم کے میزائل چاہییں۔ ’’میرا کرد نمائندوں سے رابطہ ہوا ہے اور انہوں نے ٹینک شکن میزائل فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔ میرے خیال میں اس بارے میں بات کرنا ضروری ہے کہ آئی ایس کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے فوری طور پر کیا اقدامات اٹھائے جائیں۔‘‘

Symbolbild Deutschland Waffenexporte
تصویر: Getty Images

اطلاعات کے مطابق آئی ایس کے شدت پسندوں کے قبضے میں عراقی فوج کے کئی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں ہیں۔ اس سے قبل شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ’ آئی ایس‘ کے خلاف جرمن حکومت کی جانب سے امدادی سامان مہیا کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ عسکری ساز وسامان جس میں ہیلمٹ، جیکٹیں، چھوٹی گاڑیاں یا اندھیرے میں دیکھنے کے لیے استعمال ہونے والی دوربینیں شامل ہیں، بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ جرمن پارلیمان کے زیادہ تر اراکین کرد ملیشیا کو ہتھیار فراہم کرنے کے حکومتی اقدام کے مخالف ہیں۔ وزیر اقتصادیات اور نائب چانسلر زیگمار گابریئل کے بقول معاملات کافی پیچیدہ ہیں۔ ’’ ہمیں اس وقت مشکل صورتحال کا سامنا ہے کیونکہ ہمیں انسانوں کو بچانے کے لیے اضافی طور پر اسلحہ فراہم کرنا پڑے گا اور ہمیں اس خطرے کا بھی بخوبی علم ہے کہ مستقبل قریب میں وہاں عراق کی علاقائی سالمیت کے حوالے سے ایک نیا تنازعہ بھی کھڑا ہو سکتا ہے۔‘‘

دوسری جانب شمالی عراق میں اقوام متحدہ کی جانب سے متاثرین کی امداد جاری ہے۔ بتایا گیا ہے کہ شہر دَھوک کے پاس لگائے گئے ایک کیمپ میں 80 ہزار کے لگ بھگ لوگ افراد موجود ہیں اور ان میں زیادہ تر ایزدی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ یا تو اسکولوں یا پھر زیر تعمیر عمارتوں میں رات بسر کرتے ہیں۔ تاہم وہاں موجود افراد کے خیال میں کرد ملیشیا کی پیش رفت کے باوجود آئی ایس کی جانب سے حملوں کا خطرہ موجود ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اردن سے عراقی کردستان کے شہر اربیل تک طیاروں کے ذریعے سامان پہنچانے کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس طرح چار روز تک جمبو جیٹ طیارے ضروریات زندگی کی اشیاء متاثرین تک پہنچائیں گے۔ دوسری جانب اردن، ترکی اور دبئی کے راستے بھی امدادی سامان متاثرہ علاقوں تک پہنچایا جائے گا۔