1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں جسم فروشی کا منافع بخش کاروبار

امتیاز احمد30 جنوری 2015

جرمنی میں جسم فروشی کے کاروبار کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ دیگر دفتروں کی طرح جسم فروشی کے اڈوں پر بھی کام کیا جا سکتا ہے اور خواتین اسے پیسے کمانے کا تیز ترین طریقہ خیال کرتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1ETUR
Bordell Deutschland
تصویر: picture-alliance/dpa

سن دو ہزار دو میں جرمن حکومت نے جسم فروشی سے متعلق ایک نیا ایکٹ نافذ کیا تھا اور اسے قانونی حیثیت حاصل ہو گئی۔ تب تک جسم فروشی کرنے والی خاتون اور کسی سیکس سینٹر کے مالک کے درمیان ہونے والے معاہدے کو غیر اخلاقی تصور کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ قحبہ خانہ چلانے والے کے خلاف جسم فروشی کو فروغ دینے کے الزام کے تحت اُس پر مقدمہ بھی چلایا جا سکتا تھا۔ اب قحبہ خانہ چلانے والوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔

جسم فروش خواتین کو ٹیکس پہلے بھی ادا کرنا پڑتا تھا لیکن اب ایسی خواتین ہیلتھ اور سماجی انشورنس بھی کروا سکتی ہیں۔ جسم فروش خواتین مستقل بنیادوں پر بھی کام کر سکتی ہیں جبکہ جسم فروش خواتین کا استحصال اب بھی جرم ہے۔

عصمت فروشی اور انسانی اسمگلنگ

جرمنی میں جسم فروشی کا قانون دنیا بھر کے لبرل قوانین میں سے ایک ہے۔ مثال کے طور پر امریکا میں جسم فروشی غیرقانونی کام ہے۔ اسی طرح سویڈن اور فرانس میں بھی پیسے لے کر جنسی تعلق قائم کرنا ممنوع ہے۔ لیکن ان ملکوں میں بھی جسم فروشی کا کاروبار ہوتا ہے اور پولیس اسے مکمل طور پر کنٹرول کرنے میں ناکام ہے۔ اگر کسی ایسے جوڑے کو پکڑ بھی لیا جائے تو وہ خود کو ایک دوسرے کے دوست قرار دے دیتے ہیں۔

Rotlichtviertel von Frankfurt Archiv 2003
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert

اب جرمنی میں بھی انسداد عصمت فروشی کی ایک تحریک جسم فروشی کو غیرقانونی قرار دینے کے مطالبہ کر رہی ہے۔ اس تحریک میں شامل افراد کا کہنا ہے کہ جسم فروشی کو قانونی تحفظ دینے سے نہ صرف انسانی اسمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے بلکہ بہت سی لڑکیوں کو دباؤ کے تحت یہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب ماہر سماجیات باربرا کیومان کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کا جسم فروشی کے قانون سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بڑھتی ہوئی انسانی اسمگلنگ کی بنیادی وجہ یورپی یونین کی پھیلتی ہوئی سرحدیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دو ہزار چار کے بعد مشرقی یورپ کے تیرہ ملکوں کو یورپی یونین میں شامل کیا گیا ہے۔ ان نسبتاﹰ غریب ممالک کی خواتین قانونی طور پر جرمنی میں آ سکتی ہیں اور قیام بھی کر سکتی ہیں۔

کم سن جسم فروش لڑکیاں

برلن کی ایک تنظیم ’ہائیڈرا‘ کے مطابق جرمنی میں جسم فروش خواتین کی تعداد تقریباً چار لاکھ ہے۔ تاہم اس حوالے سے بھی معلومات بہت محدود ہیں۔ کام ڈھونڈنے کی نیت سے آنے والی ہر گیارہویں لڑکی نابالغ ہوتی ہے۔

دوسری جانب جرمنی میں بچوں سے بھی جسم فروشی کروانے کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ قانونی طور پر بچوں سے جسم فروشی کرانا ایک جرم ہے جو اب ایک منافع بخش کاروبار بھی بن چکا ہے۔ بچوں سے جسم فروشی کا کام انتہائی خفیہ طریقے سے لیا جاتا ہے۔ نائٹ کلبوں، بازار حُسن اور اسی طرح کے دیگر اڈوں پر کم سن بچے دکھائی نہیں دیتے۔ جرمنی میں بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے سے منسلک میشتِھلڈ ماؤرر کہتی ہیں کہ اس حوالے سے باقاعدہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس کاروبار سے بہت سے ایسے نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی منسلک ہیں، جو اسکول بھی جاتے ہیں اور بعد دوپہر جسم فروشی کرتے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی لڑکا یا لڑکی کسی اجنبی کے کہنے پر جسم فروشی پر رضامند ہو جائے۔ اس جانب دلچسپی پیدا کرنے میں دوستوں، جاننے والوں اور رشتہ داروں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھروسہ ہے۔ جسم فروشی کے کاروبار سے متاثر ہونے والوں سے رابطہ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ متاثرہ افراد میں سے شاذ و نادر ہی کوئی کسی امدادی تنظیم کے پاس مدد کے لیے جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی متعدد وجوہات ہیں، جن کے باعث جسم فروشی کے جال سے رہائی ایک بہت ہی مشکل اور طویل مرحلہ ہے۔