1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں بھی یہودی خوف کا شکار

امجد علی27 فروری 2015

برلن میں بسنے والے تقریباً پینتیس ہزار یہودیوں میں سے کئی کھلے عام یہ ظاہر کرنے کی ہمت نہیں کرتے کہ وہ یہودی ہیں۔ کئی نوجوان یہودیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول میں سامی دشمنی واضح طور پر محسوس کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Eizh
برلن کی ایک یہودی عبادت گاہ میں ایک مذہبی سروس میں شریک ایک یہودی
برلن کی ایک یہودی عبادت گاہ میں ایک مذہبی سروس میں شریک ایک یہودیتصویر: picture-alliance/dpa/Rainer Jensen

نوجوان یہودیوں کی امسالہ کانگریس جمعرات چھبیس فروری سے جرمن دارالحکومت برلن میں شروع ہوئی ہے، جو اتوار تک جاری رہے گی اور جس میں اٹھارہ تا پینتیس برس کے چار سو سے زیادہ نوجوان یہودی شرکت کر رہے ہیں۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے باتیں کرتے ہوئے ایک 23 سالہ یہودی نوجوان مشائل گروئیز نے کہا کہ وہ ابھی خوفزدہ نہیں ہے لیکن اُسے گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک کرتی محسوس ہو رہی ہیں۔ اُس نے کہا کہ اُس کے خیال میں کسی بھی وقت جرمنی میں بھی وہی کچھ دیکھنے میں آ سکتا ہے، جو کہ دیگر یورپی ملکوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔ یہودیوں کے خلاف کسی ممکنہ دہشت گردانہ حملے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے گروئیز نے کہا :’’ہم میں سے اکثر یہی کچھ سوچتے ہیں اور اس سے پریشانی ہوتی ہے۔‘‘

برلن میں بسنے والے یہودی گوناگوں ثقافتی سرگرمیوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں
برلن میں بسنے والے یہودی گوناگوں ثقافتی سرگرمیوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیںتصویر: Andrea Kasiske

مشائل گروئیز کو برلن میں زندگی گزارتے سولہ برس ہو چکے ہیں اور وہ قریب ہی واقع شہر پوٹسڈام کی یونیورسٹی میں انتظامی سائنسز کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہے لیکن اُس کا کہنا ہے کہ اب اُسے فضا میں تبدیلی کا احساس ہونے لگا ہے:’’فضا میں سامی دشمنی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے، سوال صرف یہ ہے کہ آپ اُس کی جانب کیا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔‘‘

جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل نے حال ہی میں یہودیوں کو اپنی مخصوص ٹوپی پہن کر خاص طور پر ایسے علاقوں میں جانے سے منع کیا ہے، جہاں مسلمان بستے ہوں
جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل نے حال ہی میں یہودیوں کو اپنی مخصوص ٹوپی پہن کر خاص طور پر ایسے علاقوں میں جانے سے منع کیا ہے، جہاں مسلمان بستے ہوںتصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm

قریب ہی صوفے پر بیٹھے ہوئے اُس کے دوست مائیک سیموئل ڈیلبرگ نے پیرس اور کوپن ہیگن میں یہودیوں پر ہونے والے حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’پیرس بھی قریب ہی ہے اور کوپن ہیگن بھی ہماری دہلیز پر ہے، بنیادی طور پر جرمنی ہمیشہ دہشت گردی سے بچا رہا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ ہم اس معاملے میں غافل نہیں ہو جائیں گے‘۔

فرانس اور ڈنمارک کے دارالحکومتوں میں یہودی شہریوں پر کیے جانے والے حملوں نے جرمن دارالحکومت میں بسنے والے پینتیس ہزار کے قریب یہودیوں کے معمولاتِ زندگی کو بھی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔

مشائل گروئیز برلن میں جیوئش اسٹوڈنٹ سینٹر کا سربراہ بھی ہے۔ وہ اور اُس کا دوست ڈیلبرگ مل کر مباحثوں، مذاکروں، فنکاروں کے ساتھ شاموں یا پھر پارٹیوں کا اہتمام کرتے ہیں، جن میں تین سو کے لگ بھگ یہودی نوجوان شرکت کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پیرس اور کوپن ہیگن کے حملوں کے بعد اُنہیں اپنے حفاظتی انتظامات بہتر بنانا ہوں گے۔ زیادہ تفصیلات بتائے بغیر اُنہوں نے کہا کہ بہتر حفاظتی اقدامات میں پولیس کی گشتی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ ایک پرائیویٹ سکیورٹی سروس بھی شامل ہے۔

جرمنی میں کھلے عام خود کو یہودی ظاہر کرنا غالباً ابھی بھی خلافِ معمول ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل نے حال ہی میں یہودیوں کو اپنی مخصوص ٹوپی پہن کر خاص طور پر ایسے علاقوں میں جانے سے منع کیا ہے، جہاں مسلمان بستے ہوں۔

امادیو انتونیو فاؤنڈیشن کے ایک مطالعاتی جائزے کے مطابق گزشتہ برس جرمنی میں سامی دشمن رجحانات کی عکاسی کرنے والے 864 جرائم رجسٹر ہوئے۔ یہ تعداد 2013ء کے مقابلے میں تقریباً دَس فیصد زیادہ تھی۔