جرمنی میں بھی یہودی خوف کا شکار
27 فروری 2015نوجوان یہودیوں کی امسالہ کانگریس جمعرات چھبیس فروری سے جرمن دارالحکومت برلن میں شروع ہوئی ہے، جو اتوار تک جاری رہے گی اور جس میں اٹھارہ تا پینتیس برس کے چار سو سے زیادہ نوجوان یہودی شرکت کر رہے ہیں۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے باتیں کرتے ہوئے ایک 23 سالہ یہودی نوجوان مشائل گروئیز نے کہا کہ وہ ابھی خوفزدہ نہیں ہے لیکن اُسے گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک کرتی محسوس ہو رہی ہیں۔ اُس نے کہا کہ اُس کے خیال میں کسی بھی وقت جرمنی میں بھی وہی کچھ دیکھنے میں آ سکتا ہے، جو کہ دیگر یورپی ملکوں میں دیکھنے میں آیا ہے۔ یہودیوں کے خلاف کسی ممکنہ دہشت گردانہ حملے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے گروئیز نے کہا :’’ہم میں سے اکثر یہی کچھ سوچتے ہیں اور اس سے پریشانی ہوتی ہے۔‘‘
مشائل گروئیز کو برلن میں زندگی گزارتے سولہ برس ہو چکے ہیں اور وہ قریب ہی واقع شہر پوٹسڈام کی یونیورسٹی میں انتظامی سائنسز کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہے لیکن اُس کا کہنا ہے کہ اب اُسے فضا میں تبدیلی کا احساس ہونے لگا ہے:’’فضا میں سامی دشمنی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے، سوال صرف یہ ہے کہ آپ اُس کی جانب کیا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔‘‘
قریب ہی صوفے پر بیٹھے ہوئے اُس کے دوست مائیک سیموئل ڈیلبرگ نے پیرس اور کوپن ہیگن میں یہودیوں پر ہونے والے حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’پیرس بھی قریب ہی ہے اور کوپن ہیگن بھی ہماری دہلیز پر ہے، بنیادی طور پر جرمنی ہمیشہ دہشت گردی سے بچا رہا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ ہم اس معاملے میں غافل نہیں ہو جائیں گے‘۔
فرانس اور ڈنمارک کے دارالحکومتوں میں یہودی شہریوں پر کیے جانے والے حملوں نے جرمن دارالحکومت میں بسنے والے پینتیس ہزار کے قریب یہودیوں کے معمولاتِ زندگی کو بھی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔
مشائل گروئیز برلن میں جیوئش اسٹوڈنٹ سینٹر کا سربراہ بھی ہے۔ وہ اور اُس کا دوست ڈیلبرگ مل کر مباحثوں، مذاکروں، فنکاروں کے ساتھ شاموں یا پھر پارٹیوں کا اہتمام کرتے ہیں، جن میں تین سو کے لگ بھگ یہودی نوجوان شرکت کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پیرس اور کوپن ہیگن کے حملوں کے بعد اُنہیں اپنے حفاظتی انتظامات بہتر بنانا ہوں گے۔ زیادہ تفصیلات بتائے بغیر اُنہوں نے کہا کہ بہتر حفاظتی اقدامات میں پولیس کی گشتی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ ایک پرائیویٹ سکیورٹی سروس بھی شامل ہے۔
جرمنی میں کھلے عام خود کو یہودی ظاہر کرنا غالباً ابھی بھی خلافِ معمول ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل نے حال ہی میں یہودیوں کو اپنی مخصوص ٹوپی پہن کر خاص طور پر ایسے علاقوں میں جانے سے منع کیا ہے، جہاں مسلمان بستے ہوں۔
امادیو انتونیو فاؤنڈیشن کے ایک مطالعاتی جائزے کے مطابق گزشتہ برس جرمنی میں سامی دشمن رجحانات کی عکاسی کرنے والے 864 جرائم رجسٹر ہوئے۔ یہ تعداد 2013ء کے مقابلے میں تقریباً دَس فیصد زیادہ تھی۔