1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن صدر گاؤک کی نصف آئینی مدت پوری، ایک میزانیہ

Maqbool Malik18 ستمبر 2014

18 مارچ 2012ء کو منتخب ہونے والے جرمن صدر یوآخیم گاؤک کی پانچ سالہ آئینی مدت کا پہلا نصف حصہ آج پورا ہو رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار رالف بوزن کے خیال میں ابتدائی مشکلات کےبعد گاؤک آج کل کامیابی کے راستے پر گامزن ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DEz6
جرمن صدر یوآخیم گاؤک
جرمن صدر یوآخیم گاؤکتصویر: picture-alliance/dpa

ڈہائی برس پہلے جب سابق پادری اور انسانی حقوق کی علمبردار شخصیت یوآخیم گاؤک کو جرمن صدر منتخب کیا گیا تھا تو اُن کے ساتھ بہت اونچی توقعات وابستہ کی گئی تھیں کیونکہ وہ ایک ایسے اچھے مقرر کی شہرت رکھتے تھے، جو تلخ سچائیوں کو بھی بیان کرنے کا حوصلہ رکھتا تھا۔ تاہم لوگوں کو گاؤک کے دورِ صدارت کے ابتدائی دنوں سے قدرے مایوسی ہوئی۔ گاؤک نے اچھی تقاریر تو ضرور کیں لیکن وہ کوئی واضح اور ٹھوس لائحہ عمل اختیار نہ کرنے کی بناء پر لوگوں کو متاثر نہ کر سکے۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار رالف بوزن
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار رالف بوزنتصویر: DW/P.Henriksen

وقت کے ساتھ ساتھ 74 سالہ گاؤک ایک ایسے با اعتماد وفاقی جرمن صدر نظر آنے لگے ہیں، جو اپنی ذمے داریوں کو شوق اور لگن سے نبھا رہے ہیں۔ اب وہ روزمرہ سیاست کے فروعی معاملات میں الجھے بغیر سیاسی امور پر بھی آزادی اور ہوشیاری کے ساتھ اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ چانسلر اور صدر کی سیاسی جوڑی کی تقسیمِ کار ہر طرح سے مکمل نظر آتی ہے۔ جہاں چانسلر خاموش رہتی ہیں، وہاں صدر واضح انداز میں اپنا نقطہء نظر بیان کر دیتے ہیں اور جہاں صدر عوام کے جذبات و احساسات کا خیال رکھتے ہوئے اُن کے ساتھ براہِ راست مکالمہ کرتے ہیں، وہاں چانسلر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ درپیش مسائل کو حل کرتی ہیں۔

جب سے گاؤک نے دنیا میں جرمنی کے کردار اور دورِ حاضر کے بڑے تنازعات کی صورت میں اپنی صدارت کے مرکزی موضوعات ڈھونڈ لیے ہیں، تب سے اُن کی کارکردگی اور ساکھ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مثلاً اُنہوں نے یوکرائن کے تنازعے کے پس منظر میں روس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’علاقوں سے دستبرداری کا رویہ اکثر جارح فریق کی بھوک کو اور بڑھا دیتا ہے‘۔

چانسلر انگیلا میرکل اور صدر یوآخیم گاؤک کی سیاسی جوڑی کے درمیان تقسیمِ کار ہر طرح سے مکمل نظر آتی ہے
چانسلر انگیلا میرکل اور صدر یوآخیم گاؤک کی سیاسی جوڑی کے درمیان تقسیمِ کار ہر طرح سے مکمل نظر آتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

اسی طرح گاؤک نے جرمنی میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت این پی ڈی کے ارکان کو ’خبتی‘ کہا اور ترکی میں اب صدر کے عہدے پر براجمان ہو جانے والے رجب طب ایردوآن کے طرزِ عمل کو ’جمہرریت کے لیے ایک خطرہ‘ قرار دیا۔ میونخ کی سکیورٹی کانفرنس میں اُنہوں نے اس امر کی وکالت کی کہ جرمنی جتنی بڑی معاشی طاقت ہے، اُسی حساب سے اُسے بین الاقوامی تنازعات میں بروقت اور فیصلہ کن انداز میں سرگرمِ عمل ہونا چاہیے، ضرورت پڑنے پر فوجی طاقت استعمال کرتے ہوئے بھی۔ گاؤک کے اس موقف پر جرمن رائے عامہ تقسیم ہو گئی تھی اور یہ موضوع کئی روز تک شہ سرخیوں کا موضوع بنا رہا تھا۔

جہاں ایک جانب گاؤک کو قوم کو جھنجھوڑنے اور بیدار کرنے کے لیے سراہاجاتا ہے، وہاں اُنہیں اس بناء پر ہدفِ تنقید بھی بنایا جاتا ہے کہ مثلاً وہ این ایس اے کے جاسوسی اسکینڈل کے باعث امریکا کو واضح الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہ جرمنی کے ایک بڑے اور مقبول صدر بننے کی راہ پر کامیابی کے ساتھ گامزن ہیں اور ابھی اُن کے پاس مزید کم از کم ڈہائی برس ہیں، جن میں وہ اپنی اس ساکھ کو اور بھی زیادہ مستحکم بنا سکتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید