جرمن خلاباز کی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر سرگرمیاں
10 جولائی 201438 سالہ جرمن خلاء نورد الیگزینڈر گیئرسٹ بین الاقوامی خلائی مرکز’ آئی ایس ایس‘ میں موجود ہیں۔ رواں ماہ کے وسط میں انہیں وہاں پہنچے ہوئے پچاس روز ہو جائیں گے۔ اس دوران وہ آٹھ سومرتبہ سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھ چکے ہیں یعنی ایک دن میں وہ سولہ مرتبہ یہ نظارہ دیکھتے ہیں۔ چار سو کلومیٹر اونچائی پر وہ ہر نوے منٹ میں ایک مرتبہ زمین کے گرد چکر لگاتے ہیں اور وہاں پر موجود جدید تکنیکی آلات کا جائزہ لینا ان کی ذمہ داری ہے۔ ان آلات کی بدولت زمین اور خلائی مرکز رابطے میں رہتے ہیں۔
جرمن خلاء نورد روزانہ ٹویٹر کے ذریعے آئی ایس ایس میں ہونے والے تجربات سے آگاہ کرتے ہیں، اپنے ساتھ ہونے والے واقعات اپنے ساتھیوں کو بتاتے ہیں اور ساتھ ہی اپنی تصاویر بھی بھیجتے ہیں۔ دو جولائی کو انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے’’ سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھنا بہترین نظاروں میں سے ایک ہے‘‘۔ اس کے علاوہ وہ عالمی فٹ بال کپ کے میچز بھی دیکھ رہے ہیں۔ وہ جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی پر خبریں بھی دیکھتے ہیں اور دیگر پروگرام بھی۔
چاند کی سطح پر پہلی مرتبہ 21 جولائی 1969ء میں قدم رکھا گیا تھا اور آج اس واقعے کو تقریباً 45 برس بیت چکے ہیں۔ اس وقت ذرائع ابلاغ کے لیے یہ ایک بہت بڑی خبر تھی۔ تاہم اب ستاروں اور کائنات کے موضوع کو ماضی کی طرح اتنی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ بہت سی آن لائن ویب سائٹس پر بے انتہا معلومات موجود ہیں اور چند ویب سائٹس نے تو ورچوئل خلاء بھی بنائی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے الیگزینڈر گیئرسٹ کے خلائی سفر کے بارے میں بہت زیادہ معلومات عام نہیں کی گئی ہیں۔
علم فلکیات بنیادی سائنس کا باقاعدہ حصہ بنتی جا رہی ہے۔ یہ اس وجہ سے حیرت انگیز ہے کہ دنیا بھر کی زیادہ تر یونیورسٹیوں میں یہ موضوع الگ سے نہیں پڑھایا جاتا بلکہ اسے طبیعات کا ایک خصوصی حصہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ تاہم بعد ازاں اس شعبے کے طالب علم فلکیات پر تحقیق کرنے والے مختلف مراکز اور مشاہدہ گاہوں اور رصد گاہوں کا رخ کرتے ہیں۔
’علم فلکیات‘ ستاروں اور سیاروں کے علم کو کہتے ہیں۔ کسی زمانے میں خلائی سفر کو انتہائی مشکل تصور کیا جاتا تھا۔ تاہم گزشتہ چند برسوں کے دوران بین الاقوامی خلائی مرکز آئی ایس ایس تک پہنچنا پہلے کی طرح مشکل نہیں ہے۔