1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن حکومت اسلحے کے معاہدوں کو حتمی شکل دینے تک اسے خفیہ رکھ سکتی ہے

کشور مصطفیٰ21 اکتوبر 2014

آج جرمن صوبے باڈن وؤٹن برگ کے دوسرے بڑے شہر کارلسروہے میں قائم آئینی تحفظ کی وفاقی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جرمن حکومت کو اسلحے کی تجارت کے معاہدوں کو حتمی شکل دیے جانے تک انہیں خفیہ رکھنے کا حق حاصل ہے۔

https://p.dw.com/p/1DZKH
تصویر: picture-alliance/dpa/Uli Deck

جرمنی کی ماحول پسند گرین پارٹی وفاقی حکومت سے اُس کی ہتھیاروں کی برآمد سے متعلق پالیسی کو شفاف بنانے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ گرین پارٹی کے سیاستدانوں کا مطالبہ رہا ہے کہ جرمن حکومت کو ہتھیاروں کی برآمد کے بارے میں پارلیمان کو تمام تر معلومات فراہم کرنی چاہیں۔ اس کے برعکس حکومت کا موقف تھا کہ وہ ہتھیاروں کی برآمد کے بارے میں پارلیمان کو اعتماد میں لینے کی پابند نہیں ہے۔ یہ بحث اتنی شدت اختیار کر گئی کہ یہ معاملہ وفاقی آئینی عدالت تک پہنچ گیا۔ اس عدالت نے آج اس بارے میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔

آج جرمن صوبے باڈن وؤٹن برگ کے دوسرے بڑے شہر کارلسروہے میں قائم آئینی تحفظ کی وفاقی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جرمن حکومت کو اسلحے کی تجارت کے معاہدوں کو حتمی شکل دیے جانے تک انہیں خفیہ رکھنے کا حق حاصل ہے۔ تاہم اس عدالت کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ برلن حکومت پر لازم ہے کہ وہ بنیادی طور پر اراکین پارلیمان کو اس بارے میں مطلع کرے کہ سلامتی سے متعلق وفاقی کونسل نے جنگی ساز و سامان کی فروخت سے متعلق کسی معاہدے کی منظوری دی ہے یا نہیں۔

Symbolbild Waffenexporte Deutschland Panzer
جرمنی کے ٹینک سعودی عرب کو فروخت کیے گئے ہیںتصویر: Ralph Orlowski/Getty Images

جرمنی کی ماحول دوست گرین پارٹی کے تین اراکین ہانس کرسٹیان اشٹروبلے، کلاؤڈیا رؤتھ اور کاٹھیا کوئل نے عدالت سے رجوع کیا تھا کہ حکومت کو ہتھیاروں کی تجارت کے معاملات میں شفافیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ آئینی عدالت کے اس فیصلے کے ساتھ ہی ان افراد کو جزوی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے ان اراکین پارلیمان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت، سلامتی سے متعلق وفاقی کونسل کی جانب سے ہتھیاروں یا اسلحہ جات کی بیرون ملک تجارت اور اس سے متعلق معاہدے طے کرنے کی اجازت ملنے کے بعد اس بارے میں پارلیمانی اراکین کو مطلع کرتی ہے جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ وہ اجازت ملنے سے پہلے پارلیمانی اراکین کو اس بارے میں اطلاعات فراہم کرے۔

Symbolbild Waffenexporte Deutschland Panzer Keiler
جرمنی کے ماڈرن ہتھیاروں کا ایک بڑا خریدار ملک اسرائیل ہےتصویر: Alexander Koerner/Getty Images

اپوزیشن کی طرف سے غیر معمولی دباؤ کے باوجود حکومت کی طرف سے تو نہیں بلکہ اخباری رپورٹوں سے 2011ء میں اپوزیشن کو اس بارے میں معلومات حاصل ہوئیں کہ جرمنی اپنی 200 جنگی بکتر بند گاڑیاں سعودی عرب کر فروخت کرنے والا ہے۔ ان رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا کہ برلن حکومت نے اس تجارتی معاہدے کو مخفی رکھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس بات کا علم صحافیوں کو تھا، اُس سے اراکین پارلیمان لاعلم تھے۔

اس واقعے سے چند ہفتوں قبل ہی سعودی عرب نے اپنے پڑوسی ملک بحرین میں جاری جمہوری تحریک کو کچلنے کے لیے وہاں اپنے ٹینک بھیجے تھے۔ اس پس منظر میں اپوزیشن پارٹیوں نے جرمنی کی طرف سے سعودی عرب کو لیپرڈ ٹینک فروخت کرنے کے اقدام کو خارجہ پالیسی کی ایک سنگین غلطی قرار دیا تھا۔ اپوزیشن کے مطابق ہتھیاروں سے متعلق اس قسم کا معاہدہ جرمنی کے ہتھیاروں کی برآمد کے قانونی ضوابط سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ گرین پارٹی کے مذکورہ پارلمیانی اراکین نے ہتھیاروں کے معاہدے کو جرمن آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے 29 جولائی 2011ء کو اس معاملے کو تحفظ آئین کی وفاقی جرمن عدالت میں پیش کیا تھا جس پر فیصلہ آج 21 اکتوبر کو سامنے آیا۔