1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپان وہیل کا شکار بند کرے، بین الاقوامی عدالت

عاطف توقیر31 مارچ 2014

اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت برائے انصاف نے پیر کے روز احکامات جاری کیے ہیں کہ جاپان کو براعظم انٹارکٹیکا میں وہیل مچھلی کا شکار بند کر دے۔

https://p.dw.com/p/1BYxo
تصویر: picture-alliance/empics

پیر کے روز عالمی عدالت برائے انصاف نے جاپان کی اس دلیل کو مکمل طور پر رد کر دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ انٹارکٹیکا میں وہیل مچھلی کا شکار سائنسی تحقیق کے ایک قومی پروگرام کا حصہ ہے۔

ڈچ شہر دی ہیگ میں واقع پیس پیلیس میں سماعت کرنے والے بینچ کی سربراہی جج پیٹر ٹومکا نے کی۔ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے اِس جج نے اپنے حکم نامے میں کہا، ’جاپان اس سلسلے میں پہلے سے جاری کردہ تمام حکم نامے، اجازت نامے اور پرمٹس منسوخ کر دے اور مستقبل میں وہیل مچھلی کے شکار کا کوئی بھی اجازت نامہ جاری کرنے سے اجتناب کرے۔‘

اس سے قبل حیاتیاتی تنوع کی علمبردار اور ماحول دوست تنظیموں کے ارکان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ مقدمے کا فیصلہ اس ممالیہ جانور کی بقا اور مستقبل کا فیصلہ کرے گا اور اس کے انتہائی دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

واضح رہے کہ جاپان نے پہلے ہی اس عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد بھی ٹوکیو حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عالمی برادری کے ایک ذمہ داری رکن کی حیثیت سے جاپان اس فیصلے کا مکمل احترام کرے گا۔

Internationaler Gerichtshof Den Haag Walfang Japan Whale Watching
آسٹریلیا کا کہنا ہے کہ جاپان سن 1988 سے اب تک دس ہزار سے زائد وہیل مچھلیاں شکار کر چکا ہےتصویر: picture-alliance/Robert Harding

خیال رہے کہ سن 2010ء میں آسٹریلیا نے جاپان کے خلاف عالمی عدالت برائے انصاف سے رجوع کیا تھا۔ اس مقدمے میں عدالت سے کہا گیا تھا کہ وہ بحر منجمد جنوبی میں وہیل مچھلی کے شکار سے متعلق جاپانی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرے۔ کینبرا حکومت کا موقف تھا کہ سائنسی مقاصد کے درپردہ اس شکار کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ وہیل مچھلی کے تجارتی مقاصد کے لیے شکار پر عالمی پابندی عائد ہے، تاہم 1986ء کے اس معاہدے میں سائنسی مقاصد کے لیے اس ممالیہ کے شکار کی چھوٹ رکھی گئی تھی۔ جاپان کا موقف رہا ہے کہ وہ بنیادی طور پر یہ شکار سائنسی اور تحقیقی مقاصد کے لیے کرتا ہے، تاہم اس سلسلے میں بچ جانے والا گوشت عام مارکیٹ میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ آسٹریلیا نے اس مقدمے میں جاپان پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ٹوکیو حکومت سن 1986ء کے اس معاہدے میں موجود کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر اور JARPA II نامی سائنسی پروگرام کو سہارا بنا کر اس عظیم الجثہ سمندری مچھلی کو شکار کر رہی ہے۔ آسٹریلیا نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ اس مچھلی کے شکار سے متعلق جاری کردہ تمام جاپانی اجازت ناموں کو منسوخ کرے اور مستقبل میں ایسے اجازت نامے جاری کرنے پر پابندی عائد کرے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ٹوکیو حکومت نے اس عمل کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شکار صرف تحقیقی مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے، جسے کینبرا حکومت نے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس پروگرام کے تحت سن 1988ء سے جاپان بحر منجمد شمالی میں دس ہزار سے زائد وہیل مچھلیاں شکار کر چکا ہے۔