1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جانوروں کی ادویات بچوں کے لیے بھی مؤثر

اُسٹر راتھ بریگیٹے/ کشور مصطفیٰ3 مارچ 2014

انتڑیوں میں پیدا ہونے والے کیڑے ’وِہپ ورم‘ وبائی مرض کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ان پیراسائٹس یا طفیلیوں کا حملہ زیادہ تر ایسے علاقوں کے انسانوں پر ہوتا ہے جہاں پینے کے صاف پانی کی قلت اور حفظان صحت کا فقدان پایا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BIbb
تصویر: Benjamin Speich/Swiss TPH

منطقہ حارہ اور نیم حاری علاقوں کے ترقی پذیر ممالک میں یہ وبائی کیڑے سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں قریب 750 ملین انسانوں کو ’وِہپ ورم‘ یا انتڑیوں کے کیڑے کے وبائی مرض کا سامنا ہے۔ طبی محققین نے ان کیڑوں کے خلاف ایک ایسی مؤثر دوا ایجاد کر لی ہے جسے جانوروں کو کیڑوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل میں قائم پبلک ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے سائنسدانوں نے ’اوکسانتھل‘ نامی کیمیائی مرکب کی مدد سے انتڑیوں میں پائے جانے والے کیڑوں کے علاج کا کامیاب تجریہ کیا ہے۔ ’اوکسانتھل‘ دراصل ترشے کے نمکیات پر مشتمل ہوتا ہے اور اسے اکثر دانتوں کی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

برطانیہ سے شائع ہونے والے ’نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن‘ میں شائع ہونے والی ایک تازہ رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے ہیلتھ انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے محققین نے افریقی ملک تنزانیہ کے ایک جزیرے پَیمبا کے اسکول کے بچوں پر اس دوا کا تجریہ کیا۔ انتڑیوں کے کیڑے یا وِہپ ورم زیادہ تر بچوں میں پائے جاتے ہیں۔

Studie zur Behandlung von Peitschenwurminfektionen in Tanzania
افریقی ملک تنزانیہ کے اسکول کے بچوں پر اس دوا کا تجربہ کیا گیاتصویر: Benjamin Speich/Swiss TPH

ریسرچرز نے اس بیماری کے شکار بچوں کو ’اوکسانتھل‘ سے تیار کردہ محض ایک ٹیبلٹ کے استعمال سے اس تجربے میں شامل 31 فیصد بچوں کو پیٹ کے کیڑوں سے نجات دلا دی۔ ’اوکسانتھل‘ نامی کیمیائی مرکب کتوں اور بلیوں کے پیٹ میں پائے جانے والے کیڑوں کی صفائی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مطالعاتی جائزے کی رپورٹ کے مصنف بینجمن شپائش کے بقول، ’’اوکسانتھل کے مقابلے میں پیٹ کے کیڑے دور کرنے کے لیے جو معمول کی ادویات استعمال کی جاتی رہی ہیں، اُن کے نتائج اس سے کہیں زیادہ بُرے ثابت ہوتے ہیں۔‘‘

مارکیٹ میں اس دوا کی کمیابی

بہت سے افریقی ممالک میں اسکولوں کے بچوں کو سال میں ایک یا دو بار احتیاطی تدابیر کے طور پر انتڑیوں کے کیڑوں کے خلاف دوا دی جاتی ہے۔ اس وبائی مرض کے خلاف اب تک جو ادویات استعمال کی جاتی تھیں، اُنہیں ’البنڈازول‘ اور ’میبنڈازول‘ کہا جاتا ہے۔ تاہم یہ ’ہُک ورم‘ اور ’راؤنڈ ورم‘ کے خلاف تو مؤثر ثابت ہوتی ہیں لیکن ’وِہپ ورم‘ کے علاج میں یہ بالکل ناکارہ ثابت ہوتی ہیں۔

بینجمن شپائش اور اُن کے ساتھیوں نے اپنی تحقیق سے پتہ چلایا کہ جانوروں کے علاج کے لیے استعمال کیے جانے والے کیمیائی مرکب ’اوکسانتھل‘ کا استعمال کرنے والے بچوں میں سے 95 فیصد کو پیٹ کے کیڑوں سے نجات مل گئی۔ ان محققین نے ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلایا کہ دو کیمیائی اجزاء ’اوکسانتھل‘ اور ’پیرانتھل پاموآت‘ کے مرکب سے تیار کردہ دوا کی مدد سے بچوں کے پیٹ میں پائے جانے والے تمام اقسام کے کیڑوں کا علاج ممکن ہے۔

Studie zur Behandlung von Peitschenwurminfektionen in Tanzania
منطقہ حارہ اور نیم حاری علاقوں کے ترقی پذیر ممالک میں یہ وبائی مرض عام ہےتصویر: Benjamin Speich/Swiss TPH

ضمنی اثرات سے محفوظ

کیمیائی مرکب ’اوکسانتھل پاموآت‘ سے تیار کردہ گولیوں کو با آسانی نگلا جا سکتا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیمیائی اجزاء انتڑیوں ہی میں رہتے ہیں اور خون تک نہیں پہنچتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے استعمال کے بعد بچوں میں کسی قسم کے کوئی ضمنی اثرات نہیں پائے جاتے۔ بینجمن شپائش کے مطابق اس دوائی کا استعمال کرنے والے چند بچوں نے معمولی سے سر درد اور متلی کی شکایت کی تاہم یہ اور دیگر ضمنی اثرات پیٹ کے کیڑے مارنے والی عمومی ادویات کے استعمال کے بعد بھی سامنے آتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئی دوائی کو انسانوں کے لیے بروئے کار لانے سے پہلے ابھی کلینیکل سطح پر مزید مطالعاتی جائزوں کی ضرورت ہے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ مریضوں کے لیے اس دوائی کی معیاری خوراک کا تعین کیا جا سکے۔