1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس کے الیکشن، سکیولر ’ندا تونس‘ 85 نشستوں پر کامیاب

عاطف بلوچ30 اکتوبر 2014

تیونس کے الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ ابتدائی سرکاری نتائج کے مطابق اتوار کو منعقد ہوئے پارلیمانی انتخابات میں سکیولر پارٹی ’ندا تونس‘ نے 85 جبکہ اسلام پسند النہضہ نے 69 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1DeEp
تصویر: Reuters/Zoubeir Souissi

خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ تیونس میں الیکشن کمیشن حکام نے جمعرات کی صبح بتایا کہ ان پارلیمانی انتخابات میں ’ندا تونس‘ نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ تیونس کی پارلیمان میں کل 217 نشستیں ہیں، جن میں سے ایک اور سکیولر پارٹی UNL نے سولہ پر کامیابی حاصل کی ہے۔ ان سرکاری نتائج کے مطابق بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی پاپولر فرنٹ تحریک نے پندرہ جبکہ ’آفاق تونس‘ نامی لبرل پارٹی نے آٹھ نشستیں اپنے نام کی ہیں۔

تیونس کے آئین کے مطابق حکومت سازی کے لیے ایسی پارٹی کو دعوت دی جاتی ہے، جس نے سب زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہو۔ یوں ابتدائی طور پر ندا کو حکومت سازی کی دعوت دی جائے گی۔ ناقدین کے بقول البتہ نئی حکومت کے قیام کے سلسلے میں مذاکراتی عمل کئی ہفتوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ دوسری طرف سرکاری نتائج کے منظر عام پر آنے سے قبل ہی سیاسی پارٹیوں نے حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ شروع کر دی تھی۔

Wahlen in Tunesien Beji Caid Essebsi
'ندا تونس‘ کے سینئر رہنما البیجی قائد السِبسی نے عزم ظاہر کیا ہے کہ ان کی جماعت ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے ایک اتحادی حکومت بنائے گیتصویر: AFP/Getty Images

'ندا تونس‘ کے سینئر رہنما البیجی قائد السِبسی نے عزم ظاہر کیا ہے کہ ان کی جماعت ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے ایک اتحادی حکومت بنائے گی۔ ستاسی سالہ اس منجھے ہوئے سیاستدان کا کہنا ہے کہ وہ جمہوری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم خیال گروہوں سے رابطوں میں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ تئیس نومبر کے صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے۔

اس شمالی افریقی ملک سے عرب اسپرنگ کا آغاز ہوا تھا۔ عوامی مظاہروں کے نتیجے میں 2011 میں طویل عرصے سے اقتدار سنبھالے ہوئے صدر زین العابدین بن علی سعودی عرب فرار ہو گئے تھے۔ اس عوامی انقلاب کے بعد وہاں منعقد ہوئے پہلے پارلیمانی انتخابات میں النہضہ نے کامیابی حاصل کی اور ملک کے دو سکیولر جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی تھی۔

اپوزیشن کے دو اہم رہنماؤں کے قتل کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بحران کی وجہ سے النہضہ پارٹی اقتدار سے الگ ہو گئی تھی، جس کے بعد وہاں مختصر وقت کے بعد ایک مرتبہ الیکشن کا انعقاد کیا گیا۔ اس الیکشن کی مہم میں النہضہ نے نعرہ لگایا تھا کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سکیھتے ہوئے مستقبل میں ایک اچھی مثال قائم کرنے کی خواہاں ہے۔ لیکن سکیولر پارٹی ’ندا تونس‘ نے اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا کہ اسلام پسندوں کے دور اقتدار میں ہونے والی بد انتظامی نے ملک کی اقتصادیات کو شدید نقصان پہنچایا جبکہ وہ کٹر نظریات کے حامل جنگجوؤں سے نمٹنے میں بھی ناکام ہو گئی تھی۔

ان انتخابات میں النہضہ نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ ملک کو موجودہ سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے یونٹی حکومت قائم کی جانا چاہیے۔ اس اسلام پسند جماعت کا کہنا ہے کہ وہ اس یونٹی حکومت کا حصہ بن کر ملک کو ترقی کی راہوں پر استوار کرنے کے لیے اپنا کردار نبھانے کے لیے تیار ہے۔