تین ہفتوں میں ایبولا وائرس یورپ پہنچنے کا خطرہ
6 اکتوبر 2014برطانیہ کی لنکاسٹر یونیورسٹی کے مختلف طرح کے وبائی جرثوموں سے متعلقہ امور کے ماہر Derek Gatherer ماضی میں وبائی بیماریوں کا باعث بننے والے وائرس اور بیکٹیریا کے پھیلاؤ کا مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایبولا وائرس کی یورپ آمد کے خطرے سے متعلق جو اعداد و شمار تیار کیے ہیں، ان میں بین الاقوامی سطح پر فضائی سفر کے ڈیٹا کو بھی بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس بات کا بھی 50 فیصد تک امکان موجود ہے کہ 24 اکتوبر تک ایبولا وائرس برطانیہ بھی پہنچ سکتا ہے۔
ڈیرک گیدرر کے مطابق اگر مختلف فضائی کمپنیاں افریقہ میں ایبولا وائرس سے متاثرہ ملکوں کو اپنے سفری پلان سے عارضی طور پر خارج بھی کر دیتی ہیں، اور معمول کی مسافر پروازوں کے دوران سبھی طیارے مسافروں سے بھرے ہوئے نہ بھی ہوں، تو بھی اس بات کا فرانس کے لیے 25 فیصد اور برطانیہ کے لیے 15 فیصد امکان بہرحال موجود رہے گا کہ اس مہینے کی 24 تاریخ تک ایبولا وائرس ان ملکوں میں پہنچ سکتا ہے۔
ایبولا کی موجودہ وباء اس وائرس کی آج تک کی سب سے ہلاک خیز وباء ثابت ہوئی ہے۔ اس سال مارچ میں مغربی افریقہ سے شروع ہونے والی یہ مہلک بیماری اب تک تین ہزار چار سو سے زائد انسانوں کی جان لے چکی ہے اور اب اس کے پھیلاؤ کی رفتار بھی کافی زیادہ ہو گئی ہے۔
ایبولا کی یہ وباء اب تک قریب سات ہزار دو سو انسانوں کو متاثر کر چکی ہے اور اس کے مریضوں کی شروع میں متاثرہ ملکوں کے علاوہ اب نائجیریا، سینیگال اور امریکا تک میں موجودگی ثابت ہو چکی ہے۔ امریکا میں اس بیماری کے پہلے واقعے کی تصدیق 30 ستمبر کو ایک ایسے مریض کی صورت میں ہوئی جو لائبیریا سے بذریعہ ہوائی جہاز امریکا پہنچا تھا۔
یورپ میں ایبولا وائرس سے متاثرہ افراد کی آئندہ موجودگی کی اولین تصدیق کا امکان فرانس میں اس لیے زیادہ ہے کہ اس وباء سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے تینوں افریقی ملکوں، گِنی، سیرا لیون اور لائبیریا میں فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے اور ان ملکوں اور فرانس کے درمیان مسافروں کی فضائی آمد و رفت بھی بہت زیادہ ہے۔
اکتوبر کی آخری دہائی کے وسط تک ایبولا وائرس ممکنہ طور پر برطانیہ اس وجہ سے بھی پہنچ سکتا ہے کہ لندن کا ہیتھرو ایئر پورٹ دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے اور ہر سال کروڑوں کی تعداد میں مسافر اپنی منزلوں تک پہنچنے کے لیے وہاں اپنی پروازیں بھی بدلتے ہیں۔
اس کے علاوہ فرانس اور برطانیہ میں اب تک ان دونوں ملکوں کے ایک ایک ایسے شہری کی اس وائرس کا شکار ہونے کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ یہ دونوں فرانسیسی اور برطانوی باشندے افریقہ سے یہ بیماری اپنے ساتھ لائے تھے۔ اب تک ان دونوں مریضوں کا کامیابی سے علاج کیا جا چکا ہے۔
لیکن سائنسدانوں کی نظر میں یہ خطرہ ابھی بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ آئندہ دنوں اور ہفتوں میں مزید ایسے یورپی باشندے اس وائرس کو اپنے اپنے ملکوں میں ساتھ لا سکتے ہیں، جنہیں یہ خبر ہی نہ ہو کہ وہ ایبولا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔
ڈیرک گیدرر کے تیار کردہ یہ اعداد و شمار ابھی حال میں وبائی امراض سے متعلق ایک طبی تحقیقی جریدے میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔ اس ڈیٹا کے مطابق اکتوبر کے آخر تک بیلجیم میں ایبولا وائرس کے پہنچنے کا خطرہ 40 فیصد اور اسپین اور سوئٹزرلینڈ میں 14 فیصد بنتا ہے۔