1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تین ہفتوں میں ایبولا وائرس یورپ پہنچنے کا خطرہ

عصمت جبیں6 اکتوبر 2014

سائنسدانوں نے ایبولا کی مہلک بیماری کے پھیلاؤ کے طریقہء کار اور فضائی آمد و رفت سے متعلق ڈیٹا کے تفصیلی جائزے کے بعد خبردار کیا ہے کہ 75 فیصد امکان ہے کہ ایبولا وائرس 24 اکتوبر تک فرانس پہنچ سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DQIZ
تصویر: Reuters/Umaru Fofana

برطانیہ کی لنکاسٹر یونیورسٹی کے مختلف طرح کے وبائی جرثوموں سے متعلقہ امور کے ماہر Derek Gatherer ماضی میں وبائی بیماریوں کا باعث بننے والے وائرس اور بیکٹیریا کے پھیلاؤ کا مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایبولا وائرس کی یورپ آمد کے خطرے سے متعلق جو اعداد و شمار تیار کیے ہیں، ان میں بین الاقوامی سطح پر فضائی سفر کے ڈیٹا کو بھی بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس بات کا بھی 50 فیصد تک امکان موجود ہے کہ 24 اکتوبر تک ایبولا وائرس برطانیہ بھی پہنچ سکتا ہے۔

Dallas USA Quarantäne Apartment Ebola Patient 03.10.2014
امریکا میں اس بیماری کے پہلے واقعے کی تصدیق 30 ستمبر کو ایک ایسے مریض کی صورت میں ہوئی جو لائبیریا سے بذریعہ ہوائی جہاز امریکا پہنچا تھاتصویر: Reuters/Jim Young

ڈیرک گیدرر کے مطابق اگر مختلف فضائی کمپنیاں افریقہ میں ایبولا وائرس سے متاثرہ ملکوں کو اپنے سفری پلان سے عارضی طور پر خارج بھی کر دیتی ہیں، اور معمول کی مسافر پروازوں کے دوران سبھی طیارے مسافروں سے بھرے ہوئے نہ بھی ہوں، تو بھی اس بات کا فرانس کے لیے 25 فیصد اور برطانیہ کے لیے 15 فیصد امکان بہرحال موجود رہے گا کہ اس مہینے کی 24 تاریخ تک ایبولا وائرس ان ملکوں میں پہنچ سکتا ہے۔

ایبولا کی موجودہ وباء اس وائرس کی آج تک کی سب سے ہلاک خیز وباء ثابت ہوئی ہے۔ اس سال مارچ میں مغربی افریقہ سے شروع ہونے والی یہ مہلک بیماری اب تک تین ہزار چار سو سے زائد انسانوں کی جان لے چکی ہے اور اب اس کے پھیلاؤ کی رفتار بھی کافی زیادہ ہو گئی ہے۔

ایبولا کی یہ وباء اب تک قریب سات ہزار دو سو انسانوں کو متاثر کر چکی ہے اور اس کے مریضوں کی شروع میں متاثرہ ملکوں کے علاوہ اب نائجیریا، سینیگال اور امریکا تک میں موجودگی ثابت ہو چکی ہے۔ امریکا میں اس بیماری کے پہلے واقعے کی تصدیق 30 ستمبر کو ایک ایسے مریض کی صورت میں ہوئی جو لائبیریا سے بذریعہ ہوائی جہاز امریکا پہنچا تھا۔

یورپ میں ایبولا وائرس سے متاثرہ افراد کی آئندہ موجودگی کی اولین تصدیق کا امکان فرانس میں اس لیے زیادہ ہے کہ اس وباء سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے تینوں افریقی ملکوں، گِنی، سیرا لیون اور لائبیریا میں فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے اور ان ملکوں اور فرانس کے درمیان مسافروں کی فضائی آمد و رفت بھی بہت زیادہ ہے۔

London Heathrow Flugzeugbrand Ethiopian Airlines
ایبولا وائرس ممکنہ طور پر برطانیہ اس وجہ سے بھی پہنچ سکتا ہے کہ لندن کا ہیتھرو ایئر پورٹ دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہےتصویر: Reuters

اکتوبر کی آخری دہائی کے وسط تک ایبولا وائرس ممکنہ طور پر برطانیہ اس وجہ سے بھی پہنچ سکتا ہے کہ لندن کا ہیتھرو ایئر پورٹ دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہوتا ہے اور ہر سال کروڑوں کی تعداد میں مسافر اپنی منزلوں تک پہنچنے کے لیے وہاں اپنی پروازیں بھی بدلتے ہیں۔

اس کے علاوہ فرانس اور برطانیہ میں اب تک ان دونوں ملکوں کے ایک ایک ایسے شہری کی اس وائرس کا شکار ہونے کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ یہ دونوں فرانسیسی اور برطانوی باشندے افریقہ سے یہ بیماری اپنے ساتھ لائے تھے۔ اب تک ان دونوں مریضوں کا کامیابی سے علاج کیا جا چکا ہے۔

لیکن سائنسدانوں کی نظر میں یہ خطرہ ابھی بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ آئندہ دنوں اور ہفتوں میں مزید ایسے یورپی باشندے اس وائرس کو اپنے اپنے ملکوں میں ساتھ لا سکتے ہیں، جنہیں یہ خبر ہی نہ ہو کہ وہ ایبولا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔

ڈیرک گیدرر کے تیار کردہ یہ اعداد و شمار ابھی حال میں وبائی امراض سے متعلق ایک طبی تحقیقی جریدے میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔ اس ڈیٹا کے مطابق اکتوبر کے آخر تک بیلجیم میں ایبولا وائرس کے پہنچنے کا خطرہ 40 فیصد اور اسپین اور سوئٹزرلینڈ میں 14 فیصد بنتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید