1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تین والدین کا بچہ: برطانیہ میں تاریخی قانون سازی مکمل

مقبول ملک / افسر اعوان25 فروری 2015

برطانیہ دنیا کا ایسا پہلا ملک بن گیا ہے جہاں اس بارے میں پارلیمانی قانون سازی مکمل ہو گئی ہے کہ کوئی ایسا بچہ پیدا کیا جا سکے جس میں ایک مرد اور ایک خاتون کی بجائے تین افراد کا ڈی این اے موجود ہو۔

https://p.dw.com/p/1Eh8J
تصویر: picture alliance/empics/Milligan

اس بارے میں قانون سازی کے دوران برطانوی پارلیمان کے ایوان زیریں یا ہاؤس آف کامنز نے ایک مسودہ قانون کی منظوری منگل تین فروری کو دے دی تھی۔ تب اس پیشرفت پر پوری برطانوی قوم دو حصوں میں بٹی دکھائی دیتی تھی کیونکہ ایک طرف مذہب کی جھکاؤ رکھنے والے افراد تھے تو دوسری جانب سائنسی ترقی سے فائدہ اٹھانے کے حمایتی شہری حلقے۔

تین فروری کے روز برطانوی پارلیمانی ارکان نے 'مائٹو کونڈریل ڈی این اے ڈونیشن‘ تکنیک کو اِن وِٹرو فرٹیلائزیشن (IVF) میں استعمال کرنے کی اکثریتی رائے سے اجازت دے دی تھی۔ اِن وِٹرو فرٹیلائزیشن کا مطلب ہے کہ کسی خاتون کے بیضے کو جسم سے باہر لیبارٹری میں بار آور کر کے اسے دوبارہ رحم مادر میں منتقل کر دیا جائے۔ اسے ٹیسٹ ٹیوب کا طریقہ کار بھی کہا جاتا ہے۔

Deutschland Wissenschaft Biotechnologie DNA-Doppelhelix
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Warmuth

'مائٹو کونڈریل ڈی این اے ڈونیشن‘ دراصل کسی ایسی تیسری خاتون کی جانب سے ڈی این اے کے مخصوص حصے عطیہ کرنے کا عمل ہے جو کسی بچے کے والدین کے علاوہ ہو۔ اس عمل کا مقصد پیدا ہونے والے بچے کو ماں کی طرف سے منتقل ہونے والی موروثی بیماریوں کے خطرات سے بچانا ہوتا ہے۔

اس مسودہ قانون کے ذریعے ٹیسٹ ٹیوب بے بی یا IVF کے حوالے سے برطانیہ میں مروجہ قوانین میں اس سلسلے میں ترمیم کی اجازت دے دی گئی تھی کہ ایک ماں اور ایک باپ کے ڈی این اے میں تیسرے فرد کے طور پر کسی اور خاتون کے صحت مند ڈی این اے کا بھی بہت تھوڑا سا حصہ یا mDNA شامل کیا جا سکے۔

جس دن ہاؤس آف کامنز میں اس بارے میں ایک قانونی بل پر رائے شماری ہونا تھی، اسی روز برطانیہ کی چیف میڈیکل افسر سیلی ڈیویس Sally Davies نے برطانوی روزنامے 'ٹیلی گراف‘ میں لکھا تھا، ’’آج کا دن ماڈرن میڈیسن کے لیے ایک تاریخی دن کی حیثیت رکھتا ہے، جب پارلیمان اس بات پر بحث کر رہی ہے کہ کیا برطانیہ کو وہ پہلا ملک بن جانا چاہیے جہاں آئی وی ایف طریقہ علاج کے لیے مائٹو کونڈریل ڈونیشن کی اجازت دی گئی ہو۔‘‘

ہاؤس آف لارڈز کی طرف سے بھی منظوری

Symbolbild Schwangerschaft
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini

اس موضوع پر برطانیہ میں نئی لیکن حتمی قرار دی جانے والی پیش رفت منگل چوبیس فروری کے روز دیکھنے میں آئی، جب اسی مسودہ قانون کو لندن میں برطانوی ایوان بالا یا ہاؤس آف لارڈز نے بھی اکثریتی رائے سے منظور کر لیا۔ اس طرح برطانیہ میں اب ’تین والدین کے ایک بچے‘ کی پیدائش سے متعلق دنیا بھر میں اپنی نوعیت کی اولین قانونی سازی کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔

ان نئے قانونی امکانات سے اب اصولی طور پر برطانیہ میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی عمر کی ایسی قریب ڈھائی ہزار خواتین فائدہ اٹھا سکیں گی، جن سے ان کے بچوں میں موروثی بیماریاں منتقل ہونے کا امکان موجود ہے۔ تاہم نئی قانون سازی کے ذریعے اس طبی تکنیک کی باقاعدہ اجازت دے دیے جانے کے بعد بھی مخالفین کا کہنا ہے کہ اس طرح مستقبل میں 'ڈیزائنر بےبیز‘ یا اپنی پسند کے بچے پیدا کرنے کی راہ ہموار کر دی گئی ہے۔

مائٹو کونڈریل ڈی این اے دراصل ماں سے بچے میں منتقل ہوتا ہے اور mDNA کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں میں نظر کی کمزوری سے لے کر ذیابیطس اور پٹھوں کو لاحق بعض بیماریاں ہو سکتی ہیں۔ برطانوی طبی حکام کے مطابق ہر برس قریب 125 بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جن میں ماؤں سے اس طرح کی بیماریاں منتقل ہوتی ہیں۔