1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تعلیم یافتہ نوجوان جہادی کیسے بنے

شامل شمس / عدنان اسحاق22 مئی 2015

کراچی میں اسماعیلی شیعہ برادری پر خونریز حملے اور سبین محمود کے قتل کے الزام میں متعدد افراد زیر حراست ہیں۔ یہ مشتبہ افراد شہری علاقے کے پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان ماڈرن جہادی کیسے بنے؟

https://p.dw.com/p/1FUW7
تصویر: picture alliance/ZUMA Press/Medyan Dairieh

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد کے مطابق کراچی میں پچاس کے قریب اسماعیلی شیعہ مسلمانوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن سبین محمود کو قتل کرنے والے افراد زیر حراست ہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آیا تمام گرفتار شدگان کسی معروف اسلامی شدت پسند گروپ سے تعلق رکھتے ہیں تاہم سلامتی کے اداروں کے مطابق ان میں سے ایک القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے ساتھ رابطے میں تھا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ تمام زیر حراست مشتبہ شدت پسند مختلف یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں اور ان میں سے کئی انجینئرنگ، بزنس اور اسلامیات کے شعبوں میں باقاعدہ ڈگریاں یافتہ ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین اسد بٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سیاسی اسلام کافی حد تک ایک شہری رجحان ہے اور جب ہم پاکستان میں انتہاپسندی میں اضافے کی بات کرتے ہیں تو ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ مغرب کی توجہ مدرسوں تک ہی محدود ہے حالانکہ پاکستان کے دیگر تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب پر توجہ دینا بھی اتنا ہی لازمی ہے۔ ’’یہ نصاب جہادی ذہن تیار کرتا ہے اور تشدد کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی اور عدم برداشت کا تعلق صرف غربت سے نہیں ہے۔

Screenshot Twitter zu Pakistan Karachi Anschlag auf Frauenrechtsaktivistin Sabeen Mehmud
تصویر: Twitter

کراچی یونیورسٹی کے ایک طالب علم تنویر احمد نے بھی اسد بٹ کے موقف کی تائید کی۔ وہ کہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں لبرل افراد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور انتظامیہ بھی اس کی اجازت نہیں دیتی۔ وہ اس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یونیورسٹی کے سیکولر اساتذہ اور طلبہ بلوچستان اور مقتولہ سبین محمود کے لیے ایک تقریب منعقد کرانا چاہتے تھے، جس کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ ’’اس کے بعد اس سیمینار کا انعقاد یونیورسٹی آڈیٹوریم کے باہر ہی کرانا پڑا۔‘‘

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین اسد بٹ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ انتہا پسندی پاکستان کے دیہی اور غریب علاقوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ ’’یہ لوگ مشرق وسطٰی کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ یہ لوگ امریکی پالیسیوں پر بحث و مباحثے کرتے ہیں، مسلم ممالک میں جاری تنازعات پر بات کرتے ہیں۔ اصل میں یہ لوگ کسی شناخت کی تلاش میں ہیں۔‘‘ تاہم دوسری جانب تنویر احمد کے بقول،’’مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ مدرسوں میں کیا پڑھایا جاتا ہے، لیکن میں یہ بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یونیورسٹی کا نصاب بھی کسی کو شدت پسند بنانے کے لیے کافی ہے۔‘‘