1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تری پورہ: فوج سے ’شوٹ ٹو کِل‘ کا اختیار واپس لے لیا گیا

افسر اعوان28 مئی 2015

بھارتی ریاست تری پورہ کی صوبائی اسمبلی نے اُس 18 سال پرانے متنازعہ قانون کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت ملکی فوج کو یہ اختیار حاصل تھا کہ سکیورٹی اہلکار کسی بھی مشتبہ شخص کو دیکھتے ہی گولی مار سکتے تھے۔

https://p.dw.com/p/1FXzw
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Channi Anand

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس قانون نے اس بھارتی ریاست میں فوجیوں کو نہ صرف بہت زیادہ اختیارات دے رکھے تھے بلکہ انہیں قانون کی گرفت میں آنے سے تحفظ بھی فراہم کیا گیا تھا۔ یہی قانون بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے متنازعہ علاقے میں بھی 1990ء سے نافذ ہے۔

آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) نامی اس قانون کے خاتمے کے فیصلے کو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں کی طرف سے سراہا گیا ہے۔ ان گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دیگر ریاستوں کے لیے بھی ایک مثال بن سکتا ہے کہ وہ بھی فوج کو دیے گئے خصوصی اختیارات کا خاتمہ کر سکیں، جن کا غلط استعمال علیحدگی پسندوں، دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد اور قبائلی باغیوں کو روکنے کی کارروائیوں کے نام پر کیا جاتا ہے۔

یہ قانون بھارت کی دیگر شمال مشرقی ریاستوں میں ابھی تک موجود ہے جہاں حالیہ برسوں کے دوران تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ساؤتھ ایشین ٹیررازم پورٹل نامی ایک تِھنک ٹینک کے مطابق ان علاقوں میں گزشتہ برس ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں 450 افراد ہلاک ہوئے۔

تاہم ریاست تری پورہ گزشتہ برسوں کے دوران نسبتاﹰ پر امن رہی ہے جس کی وجہ سے ریاستی حکومت کے بقول وہاں کے وزیراعلیٰ کو یہ ’دلیرانہ قدم‘ اٹھانے کا موقع مل سکا۔ تری پورہ کے وزیراعلیٰ مانِک سرکار Manik Sarkar کا ریاستی دارالحکومت اگرتلہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’عسکریت پسندی میں بڑی حد تک کمی کی وجہ سے وزراء کی کونسل نے طے کیا کہ ریاست سے AFSPA کا خاتمہ کر دیا جائے۔‘‘

یہی قانون بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے متنازعہ علاقے میں بھی 1990ء سے نافذ ہے
یہی قانون بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے متنازعہ علاقے میں بھی 1990ء سے نافذ ہےتصویر: AFP/Getty Images/T. Mustafa

مانِک سرکار کا مزید کہنا تھا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ لوگ بے خوف ہو کر زندگی گزاریں اور ریاستی پولیس ان کی حفاظت کے لیے ہر وقت موجود ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ 1997ء میں اس قانون کا اطلاق بھارت سے علیحدگی چاہنے والے گروپوں کا مقابلہ کرنا کے لیے کیا گیا تھا۔

بھارت میں وفاقی حکومت کی طرف سے ’بے چینی کا شکار علاقوں‘ میں خصوصی اختیارات کا استعمال پہلی بار 1958ء میں کیا گیا تھا جس کے بعد اس قانون کو شمال مشرق کے زیادہ تر حصوں پر لاگو کر دیا گیا تھا۔ حال ہی میں اس قانون کو اروناچل پردیش میں بھی نافذ کر دیا گیا، جس کی سرحد چین کے ساتھ ملتی ہے۔

تری پورہ ہیومن رائٹس گروپ کے ایک رکن ابیک رائے Abeek Roy کے مطابق، ’’فوج نے ہماری ریاست میں سالہا سال تک لوگوں پر تشدد کیا۔ میں خوش ہوں کہ حکومت نے آخر کار انہیں حاصل نوجوان مردوں اور عورتوں پر تشدد کرنے کا لائسنس منسوخ کر دیا ہے۔‘‘