1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تجارت اور چین، مودی کے دورہ جاپان کے اہم نکات

29 اگست 2014

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ہفتہ 30 اگست کو جاپان جا رہے ہیں۔ ان کے اس دورے کا ایک اہم مقصد اپنے ہم خیال جاپانی وزیراعظم شنزو آبے کے ساتھ ایشیا کی دوسری اور تیسری بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی تعلقات کا فروغ ہے۔

https://p.dw.com/p/1D3bC
تصویر: Punit Paranjpe/AFP/Getty Images

دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ان دونوں قوم پرست رہنماؤں کو اپنے اپنے ملکوں کی معیشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے منتختب کیا گیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے جاپانی ہم منصب شنزو آبے کے درمیان ایک اور قدر مشترک چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے علاقائی اتحاد قائم کرنے کی خواہش بھی ہے۔

وزارت عُظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جنوبی ایشیا سے باہر مودی کا یہ پہلا دورہ ہے۔ اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ بھارت جاپان کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔ اسی بات کا اظہار کرتے ہوئے مودی کا کہنا تھا کہ جاپان کے ساتھ تعاون کے بے بہا امکانات موجود ہیں۔ جمعرات کے روز اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں مودی کا کہنا تھا، ’’جاپان کی بھارت کے ساتھ دوستی ہر آزمائش پر پوری اتری ہے۔ ہم دو متحرک جمہوریتیں ہیں جو دنیا میں امن اور جمہوریت کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔‘‘ یہ پیغام ہندی اور جاپانی زبانوں میں ٹوئیٹ کیا گیا۔

مودی اور آبے، ہفتے کے روز تاریخی شہر کیوٹو میں پرائیویٹ طور پر ملاقات کریں گے
مودی اور آبے، ہفتے کے روز تاریخی شہر کیوٹو میں پرائیویٹ طور پر ملاقات کریں گےتصویر: JIJI Press/AFP/Getty Images

مودی اور آبے، ٹوکیو میں باقاعدہ مذاکرات سے قبل ہفتے ہی کے روز تاریخی شہر کیوٹو میں پرائیویٹ طور پر ملاقات کریں گے۔ مودی دو بار پہلے بھی جاپان کا دورہ کر چکے ہیں مگر یہ تب کی بات ہے جب وہ بھارتی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ ان دونوں دوروں کے دوران ان کی شنزو آبے سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔

نریندر مودی اور شنزو آبے کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مودی وہ تیسری شخصیت تھے، جنہیں آبے نے ٹوئیٹر پر فالو کیا۔ اس سے قبل آبے نے محض ایک جاپانی سیاستدان اور اپنی بیوی کو ٹوئیٹر پر فالو کیا تھا۔

جاپان کی وسیڈا Waseda یونیورسٹی سے منسلک بین الاقوامی سیاسیات کے ماہر ٹاکے ہیکو یاما موٹو Takehiko Yamamoto کے مطابق یہ دونوں دو ایسے ممالک کے سربراہ ہیں جو چین کے ساتھ علاقائی تنازعات رکھتا ہے۔ جاپان کے اہم اتحادی امریکا کی طرف سے بھی، جو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تحفظات رکھتا ہے، نئی دہلی اور ٹوکیو کے درمیان قریبی تعلقات کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ یاما موٹو مزید کہتے ہیں، ’’مودی کے دورے سے چین کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے دونوں رہنماؤں کو طویل المدتی تعاون کا موقع ملے گا۔‘‘

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبر الدین کے مطابق مودی کے دورے سے بھارتی برآمدات کو فروغ ملے گا۔ مودی کے دورہٴ جاپان کے دوران بھارتی تاجروں کا ایک بڑا وفد بھی اُن کے ساتھ جائے گا۔ ترجمان کے مطابق مودی بھارت میں انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے جاپانی تعاون حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔