1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیوی کی شاہانہ پارٹی، ایرانی صدر تنقید کی زد میں

عاطف توقیر23 اپریل 2014

ایرانی صدر کی اہلیہ کی ایک حالیہ پارٹی کی وجہ سے حسن روحانی کو قدامت پسندوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ قدامت پسند پہلے ہی روحانی پر مغرب کے لیے زیادہ لچک دار رویہ روا رکھنے کی وجہ سے تنقید کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BmP7
Hassan Rohani
تصویر: Isna

منگل کے روز حسن روحانی کے مخالفین نے خاتون اوّل کی منعقد کردہ اس تقریب پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے ناقابل برداشت قرار دیا۔ یہ تقریب خواتین کے دن کے موقع پر شمالی تہران میں سابق بادشاہ محمد رضا شاہ کے محل میں منعقد کی گئی تھی۔ خیال رہے کہ ہفتے ہی کے روز شیعہ اکثریتی آبادی والے ملک ایران میں دخترِ پیغمبرِ اسلام فاطمہ زہرہ کا یوم پیدائش بھی منایا گیا اور یہ تقریب اسی لیے اس بڑے پیمانے پر منعقد کی گئی تھی۔

منگل کے روز ایرانی پارلیمان میں قدامت پسند اراکین نے اس پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے موقع پر جب عوام معاشی بدحالی کا شکار ہيں، ایسی پرتعیش تقریب ناقابل برداشت اور عوام کی کسمپرسی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ایران کے خلاف سخت مغربی پابندیوں کی وجہ سے ملکی معیشت کسادبازاری کا شکار ہے اور افراط زر کی شرح انتہائی بلند ہے۔

Iran Präsident Rohani Treffen mit Künstlern
روحانی گزشتہ برس برسراقتدار آئے تھےتصویر: www.president.ir

پارلیمان میں صدر روحانی کے خلاف گیارہ قانون سازوں کی دستخط کردہ ایک درخواست بھی دائر کی گئی ہے، جب کے منگل کے روز ایک رکن پارلیمان کی جانب سے کہا گیا، ’آپ بچتی اقدامات اور مالی قربانیوں کی تلقین کیسے کر سکتے ہیں، جب آپ خود عوام کے پیسے سے ایسی پرتعیش پارٹیوں کا انعقاد کریں۔‘

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ روحانی کی حکومت جمعرات کے روز متعدد اشیاء پر حکومتی مراعات کا خاتمہ کرتے ہوئے مہنگائی میں مزید اضافے کا اعلان کرنے والی ہے۔ ان نئے اقدامات کو ایران میں حسن روحانی کی مقبولیت کے ایک امتحان کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ اعتدال پسند نظریات کے حامی حسن روحانی گزشتہ برس غیر متوقع طور پر صدارتی انتخابات جیت گئے تھے۔

صدارتی انتخابات میں فتح کے بعد صدر روحانی نے ایران کے جوہری معاملے پر مغربی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کا دوبارہ آغاز کیا تھا اور انہیں مذاکرات کے نتیجے میں گزشتہ برس کے آخر میں ایک عبوری معاہدہ طے پا چکا ہے، جب کے کسی حتمی معاہدے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ اس حوالے سے بھی ایران کے قدامت پسند حلقے صدر روحانی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ انہوں نے مغربی ممالک کے ساتھ مذاکرات میں انتہائی لچک کا مظاہرہ کیا۔

ان الزامات اور تنقید کے جواب میں صدارتی دفتر کی جانب سے کہا گیا ہے، ’یہ بات انتہائی افسوس ناک اور صدمے کا باعث ہے کہ ایسی معصوم تقریب بھی جھوٹ اور سیاسی الزامات سے مبرا نہیں۔‘